شطرنج اور ایک صورت خرابی کی
تو کون جیتا آخری گیم میں، میں نے رات کے کھانے پر موضوع نکالا۔
جیتا۔۔!! بہنا کی بڑبڑاہٹ۔ ہم نے ہار جیت کے بغیر کھیلا ہے۔۔
پھر کیسے کھیلتے ہیں اسکو
تو مہروں کی تفصیل کچھ ان کی زبانی:
بادشاہ اور وزیر جو ہیں وہ ماں باپ ہیں۔
(انہیں تو اس نے بورڈ پر بھی نہیں رکھنے دیا۔۔ احتجاجی صدا۔ میرا اشارہ۔ خاموش۔۔ سننے دو بھئی)
ہاں ماں باپ وہ باہر کھڑے دیکھ رہے ہیں
اچھا پھر کیا ہوتا ہے۔
کچھ نہیں۔ بس سارے پیادے لڑکیاں ہیں۔ (ہمم) انکے لمبے ڈریسز(ہممم) تو وہ بیلے ڈانس کرتی ہیں فلور پر
سارے دوسرے مہرے لڑکے ہیں(ہاہا) وہ ڈانس نہیں کرتے۔
تو کیا کرتے ہیں
وہ فٹبال کھیلتے ہیں۔
گیم ختم کیسے ہوتی ہے۔
جب لڑکیاں ڈانس کرکے تھک جائیں گی۔ لڑکے فٹبال کھیلتے کھیلتے بورڈ کی دوسری سمت چلے جائیں گے۔ ان کے ماں باپ انکو بلا لیں گے تو ۔۔۔
(یا اگر قسمت اچھی ہو تو کھانے کا وقت ہو جائے گا۔۔۔ احتجاجی صدا)
گیم کے اصول تو جلد یا بدیر اسکو ازبر ہو جائیں گے لیکن پرانے کھیل کا نیا پن روز روز کہاں ملے گا۔
چودھویں کا چاند
شام پانچ بجے مجھے چاند کے بھدے پھیکے پن کے علاوہ کسی چیز کی توقع نہیں تھی۔ سو حسب عادت دیکھے بغیر ہی واہ واہ کا نعرہ بلند کر دیا۔ پھر واہ واہ کی بازگشت دو ایک مرتبہ اور بلند ہوئی تو میں نے سرسری نظر داہنی طرف ماری۔ چاند واقعی بڑا اور ضرورت سے زیادہ اجلا تھا۔
محبت
میں اور اب نہیں جیوں گی
مکمل نظم کے لیے کتاب دیکھیں
دریچوں میں جگنو
سب سے اچھا بچہ
اپڈیٹ:
یہ تحرير اور دوسرے افسانے پڑھنے کے لیے ذیل کی پوسٹ میں کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں ۔
_______________
پرانے افسانے
رافعہ خان
ثانا بابا
سب سے زیادہ برے مجھے اپنی بائیں جانب رہنے والے لگتے ہیں۔ برسوں سے ہم لوگ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ لیکن نوازش فیملی کبھی بھی میرے رعب تلے نہیں آئی۔ اپنی کامیابیوں کا کتنا بھی ڈھنڈورا پیٹو، بچوں کی کارکردگی بڑھا چڑھا کر پیش کردو، اپنے کرسٹلز بطور خاص منگوا کر دکھا دو۔ مسز نوازش کی گھنی مسکراہٹ پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ ذرا جلن نہیں دکھاتیں۔ اور ویسی ہی ان کی دونوں بیٹیاں ہیں۔ ملنساری اور سلیقہ بھگارنے کو بس موقع چاہیے۔ اوپر سے ان کا بیٹا ۔ سارا وقت لان میں مختلف ورزشیں کرتا رہتا ہےلیکن گریڈز ایسے لاتا ہے جیسے کتاب ہر وقت ہاتھ میں رہتی ہو ۔دل خاک ہو جاتا ہے۔ کسی روز ایسی چوٹ لگنی ہے اس ٹارزن کو کہ جنگل میں منگل ہو جائے گا۔
سچ ادھورا ہے ابھی۔ انتساب
لفظ کاش کے نام
محبت سے نفرت تک
آرزو سے حسرت تک
سب ریاضتوں کا عنوان رہا ہے
کلمہء افسوس ہے مگر
حرف دعا بھی ہے۔
ناپرساں
اس بولتے شہر میں میرا غم کون کب سنے
میرے شہر کے سارے لوگ،
خود اپنے ارادوں کی نا قدری کی داستانیں بیان کرتے
اس زمانے کی آگہی کے جرم سناتے
لوگوں کی جہالت کے غم مناتے ، بولتے مسکراتے جا رہے ہیں
سبھی کو اپنا غم سنانا ہے ابھی
راستوں میں ٹھوکریں کھاتے قدموں کے زخموں کے قصے
حکایت زندگی رقم کرتے خونچکاں ہاتھوں کی داستانیں
میرا غم کون کب سنے؟؟
بصیرہ عنبرین۔۔ یہ سچ مچ تم ہو یار بہت زیادہ خوشی ہوئی تم کو یہاں پر دیکھ کر۔ اور میں…
رافعہ خان آج بھی اتنا اچھا لکھ رہی ہیں جیسا کہ شروعات میں لکھ رہی تھیں۔ ماشاءاللہ
یہ کتاب بہت اچھی ہے۔رافعہ کی پہلی کتاب کی طرح۔کیا مصنفہ کا اصل نام رافعہ وحید یے۔
'A blessing cannot be saved.' Aptly put. Jo buray waqt kay liye jama' karay ga, uss par bura waqt aaye…
"ابھی ویسے ایسے لگ رہا ہے کسی نے جلدی میں انقلاب کا ڈبہ کھولتے ہوئے اسے فرش پرگرا دیا ہے"كمال…
میجیکل!!!!کم الفاظ میں اتنا خوبصورت لکھنا، بہت کم لوگوں کے پاس صلاحیت ہوتی ہےلکھتی رہئیے :)
ماشاءاللہ کافی اچھا لکھ لیتی ہو آپ۔ آپ جس طرز کا لکھتی ہو بہت خوب اور عمدہ لکھتی ہو لیکن…
سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہا جا سکتا کہ "بہترین"۔۔۔ اور "بہت ہی عمدہ"۔۔۔
بہت خوب۔۔۔ آپکی پچھلی تحریر بھی کُچھ طویل ہونے کے باوجود پڑھ کر مزہ آیا اور یہی حال اس مرتبہ…
محترمہ رافعہآپ کا بلاگ بہت سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے، اور آپ کی تحریر کا انتظار بھی رہتا ہے-بہت شکریہ