خوابوں کی داستاں

ازل سے انساں کی چاہت
روشنی کے سارے خواب
تاریکی کی عنایت ہیں
انہیں ہم تیرگی ہی میں دیکھتےہیں
تیرگی ہی میں چاہتے ہیں
اور جشن کی روشنی میں
خواب زدہ زخمی آنکھیں لیے
اپنی تاریک ریاضتیں بھول کر
سب کے ہمراہ مسکراتے ہیں
 
__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

جب محبت جھٹکی جاتی ہے

اڑتی سوچیں پر سمیٹے خیال افق پر گم ہو جاتی ہیں
دل اک تسلسل سے سانس گنتا
رکنے لگتا ہے
 
آنکھوں کے جلتے سورج
روٹھی پلکوں پیچھے ڈوب جاتے ہیں
آوازیں لڑکھڑا کر سماعتوں کی بے نیازی سے
گھبرا کر رونے لگتی ہیں
بے سوال چہرے کا رنگ ساکت نظروں سے سب کو تکتا ہے
 
ان پرشور لمحوں میں اندھیرے سایوں سے
چپکے سے کچھ کہتے ہیں
آنسو دل میں اٹھتے ہیں رک رک کر
بہتے نہیں پر چبھتےہیں
اور سارے میں ایک کڑوی بو لہراتی ہے
 
_________________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

شکست کا شمار

اس برس سے پہلے کا برس

بھر اس سے پہلے
یا اس کے بعد
یہ سارے سال
تاریخیں، دن، گھڑیاں، ثانیے
نرم روی سے مجھے شمار کرتے گزر رہے ہیں
اور میں انکو گن رہی ہوں
مگر میں پہلے تھک جاؤں گی
۔
 
__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان