محبت لفظ تھا پہلا ۔ ۔


محبت لفظ تھا پہلا
پر اکثر کتابوں کو ہم ہونہی اٹھاتے ہیں، پلٹتےہیں،
بیچ سے کہیں ایک دو سطر پڑھتے ہیں
پرکھتے ہیں، چھوڑ دیتے ہیں
محبت ہر لفظ میں ہم کو نہیں دکھتی
محبت ہر سطر میں نہیں ہوتی

.

مکمل نظم کے لیے کتاب دیکھیں

دریچوں میں جگنو

خسارہ

ثبات فرسودگی ہے
تغیر جہد مسلسل ہے
سعی بے سود ہے
تیری آنکھ میں لپکتی زندگی کی قسم
ٹوٹے ہوئے اودے کانچ پر تیرا پیر ہے
تیرا اگلا قدم نہ تیری ہار ہے، نہ تیری جیت ہے
سانس لینے کی، آس رکھنے کی جو ریت ہے
اس کی پہلی منزل ہے تاریکیاں
تیرے امروز میں پابندیاں رات کی

مکمل نظم کے لیے کتاب دیکھیں 

دریچوں میں جگنو

رافعہ خان

سامنے صرف راستہ ہے

اب خواہ چہرے پہ اپنا شناخت نامہ رکھ کر
پاؤں کے چکر سے رستہ ناپو
خواہ سیاہ راتوں میں روپہلے تصور آنکھوں میں چھپا کر
جذبوں کے سفر پر نکلو
چلتے رہو ۔ ۔ 
 
اب خواہ محبتوں کا اولین بہار لمحہ جیو جو قوس ِ قزح
کے ہزار لمحوں سے حسیں تر ہے
کائینات کے ہونے کا یقیں بن گیا ہے
خواہ کاغذوں پر چھپے بارشوں کے سارے وقفوں
گرتے پتوں۔ خزاؤں کے نقاب کے ابھرے تار گنتے رہو
چلتے رہو ۔ ۔ 
 

مکمل نظم کے لیے کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں۔

__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

تم نے دل کو دیکھا ہے

“تم نے دل کو دیکھا ہے
اٹھا کر دائیں ہاتھ کو
جب وہ قسم کھاتا ہے
کوئی کانٹا من کی نرمی کو کبھی بھی چھو نہ پائے گا
خواہ وہ ٹوٹ کر اندر سال ہا سال چبھتا ہو
ہر ٹوٹا کنارا چاک پر ایسی نرمی سے ڈھالے گا
کوئی نہ دیکھ پائے گا رفو کا ایک ٹانکا بھی
محبت کی قسم
دل کا ہر کونہ ہمیشہ مسکرائے گا۔”
۔

مکمل نظم کے لیے کتاب دیکھیں 

دریچوں میں جگنو

رافعہ خان

میں ایک جھوٹ جیتی ہوں

میں ہوا کے کان میں اپنے خواب کہتی ہوں
ریت پر تصویریں نقش کرتی ہوں
پانی کے ورق پر اپنے راز لکھتی ہوں۔
میں تم سے کچھ نہیں کہتی
تم کب اس کو سمجھو گے ۔۔

مکمل نظم کے لیے کتاب دیکھیں 

دریچوں میں جگنو

رافعہ خان

میں اور اب نہیں جیوں گی

نئے آسماں کے نیچے
نئی زمیں پر
نئے خواب نہیں بنوں گی
نئے موسم نہیں گنوں گی

مکمل نظم کے لیے کتاب دیکھیں 

دریچوں میں جگنو

رافعہ خان

سچ ادھورا ہے ابھی۔ انتساب

 لفظ کاش کے نام

جس کا سہ حرفی وجود
محبت سے نفرت تک
آرزو سے حسرت تک
سب ریاضتوں کا عنوان رہا ہے
کلمہء افسوس ہے مگر
حرف دعا بھی ہے۔
 
__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

ناپرساں

 

اس بولتے شہر میں میرا غم کون کب سنے

میرے شہر کے سارے لوگ، 

خود اپنے ارادوں کی نا قدری کی داستانیں بیان کرتے 

اس زمانے کی آگہی کے جرم سناتے

لوگوں کی جہالت کے غم مناتے ، بولتے مسکراتے جا رہے ہیں

سبھی کو اپنا غم سنانا ہے ابھی

راستوں میں ٹھوکریں کھاتے قدموں کے زخموں کے قصے

حکایت زندگی رقم کرتے خونچکاں ہاتھوں کی داستانیں

میرا غم کون کب سنے؟؟

 
__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان