سچ ادھورا ہے ابھی۔ ای بک

سچ اَدُھورا ہے ابھی میری نثری شاعری کا دوسرا مجموعہ تھا۔ اس سے پہلے اس کتاب کے دو تجرباتی ایڈیشن وجود میں آچکے ہیں۔ یہ تیسرا ایڈیشن میں نے ایپل بک کے سسٹم کو سمجھنے کے لیے تیار کیا ہے، شاعری وہی پرانی ہے۔

پہلے دو ایڈیشنوں کے ابتدائیے میں نے اس میں سے حذف کر دیے ہیں ۔ سوائے اس اعتراف کے جو پہلے ایڈیشن سے اب تک ویلڈ ہے کہ:۔ ”اس دوسرے قدم کا سچ ابھی تک اَدُھورا ہے۔ کیوں؟ معلوم نہیں۔ شائد میرے ہاتھوں پہ لگے دھبوں کی وجہ سے۔ یا حقیقت کا ویژن دکھانے والی سکرین پر پھیلی دھند کی وجہ سے۔“ مگر اس دفعہ سالوں پہلے کیے اس اعتراف میں اخلاص کی بجائے شرمندگی کا عنصر شامل ہے۔
کتاب پڑھ کر اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اور اگر آپ نے یہ کتاب پہلے سے پڑھ رکھی ہے تو کونسی نظم آپ کو اچھی لگی۔

کتاب یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

سچ ادھورا ہے ابھی 

__________
رافعہ خان

جب تم منزل پہ پہنچو گے

جب خزاں رت زرد چہرہ لیے مجھ کو ملنے آئے گی
جب پتے سرد ہواؤں کے خوف سے پیلے ہو ہو کر
باغ میں ہر سو بکھریں گے
سارے پیڑ تشنہ لبی سے رفتہ رفتہ سوکھیں گے
تم اپنی منزل پہنچو گے
میں تم کو یاد کروں گی اور خزاں سے ہاتھ ملاؤں گی۔


_________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

ناسٹلجیا

میں خود کو کتنا بھی روز مرّہ کے سانچے میں ڈھالوں
حقیقت پسندی سے جینے کی کتنی بھی کوشش کرلوں
تمہارا تصور ہمیشہ میرے ساتھ رہتا ہے
مجھ سے بات کرتا ہے۔
 
_______________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

وہ دن آج کی مانند نہیں تھے

 
تجھے ملنے سے پہلے ۔ ۔
صبحیں اور شامیں بالکل ایک جیسی تھیں
شفق کے رنگ مدہم تھے
پرندے شور کرتے تھے
راتیں سب کی سب خاموش ہوتی تھیں
بہت بےکار سی دنیا تھی یہ اس لمحے سے پہلے
جب آرزو نے دامن دل تھاما تھا۔

 

مکمل نظم کے لیے کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں۔

__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

تمہاری آنکھیں

تمہاری آنکھیں کوئی کائینات ہیں
جس میں کوئی انجانی دنیا منجمد ہو۔
یا کوئی سمندر۔
جس میں انسان گم ہو گیا ہو۔
یا محبت کا صحرا۔

مکمل نظم کے لیے کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں۔

__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

سامنے صرف راستہ ہے

اب خواہ چہرے پہ اپنا شناخت نامہ رکھ کر
پاؤں کے چکر سے رستہ ناپو
خواہ سیاہ راتوں میں روپہلے تصور آنکھوں میں چھپا کر
جذبوں کے سفر پر نکلو
چلتے رہو ۔ ۔ 
 
اب خواہ محبتوں کا اولین بہار لمحہ جیو جو قوس ِ قزح
کے ہزار لمحوں سے حسیں تر ہے
کائینات کے ہونے کا یقیں بن گیا ہے
خواہ کاغذوں پر چھپے بارشوں کے سارے وقفوں
گرتے پتوں۔ خزاؤں کے نقاب کے ابھرے تار گنتے رہو
چلتے رہو ۔ ۔ 
 

مکمل نظم کے لیے کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں۔

__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان