Category: بلاگ
انسپیریشن
کوئی کوئی دن ہماری زندگی میں ایسے آتا ہے کہ ہمیں دنیا اپنے قدموں کے نیچے محسوس ہوتی ہے۔ روزمرہ کی چیزیں ہمارے ہاتھوں میں کھیل رہی ہوتی ہیں۔ ہم اپنے چھوٹے سے دائرے کے شہنشاہ ہوتے ہیں۔ اور سبھی کچھ دست بستہ ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے محسوسات کا مآخذ کیا ہوتا ہے۔۔ کوئی چھوٹی سی پوری ہوئی خواہش، کوئی اچھا سا خواب، کوئی مدھر سا گیت۔ وجہ کچھ بھی ہو۔ یہ بہت کارساز لمحات ہوتے ہیں۔ ہم جیسے چاہیں اس دن کو بنا لیں۔ کچھ بہتر، کچھ اچھا۔ ایسے کسی لمحے کو پکڑ لینا اور ضائع نہ ہونے دینا چاہیے۔
ایسا ہی کچھ لکھاری کے ساتھ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی لفظ اور خیالات ہمارے بہت قریب آ جاتے ہیں۔ ایک ہاتھ کے فاصلے پر۔ اور بالکل موم کی طرح ہمارے ہاتھوں، دماغ اور زبان پر بنت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ جیسے چاہیں ان کو ڈھال لیں۔ شائد اسی کو انسپیریشن کہتے ہیں۔ لفظ جب ہاتھوں میں پگھلتے ہیں تو موم نہیں رہتے، آب زر بن جاتے ہیں۔ ان لمحوں کی کہانی جب اپنی طرف کھینچتی ہے تو لوٹنے کا کوئی محل نہیں ہوتا۔۔ پر زندگی اپنے موقع محل خود بناتی ہے۔۔ جگہ جگہ رک کر لفظوں کو خیالات کی ڈگڈگی سے تال ملاتے دیکھنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔
دیوان حافظ، فالنامہ اور ایٹ بال
لیکن بچوں کو ہر طرح کی علتوں سے دور رکھنا، ان کو ہر وقت صحیح غلط کی تمیز دیتے رہنا اور اصلاح کرنے کا کوئی موقع نہ جانے دینا اکثر والدین کی طرح میرا بھی پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس وجہ سے میں نے آج تک انہیں ایٹ بال نہیں لے کر دی۔ لیکن انہوں نے دوسرا رستہ نکال لیا ہے۔ میں نے موقع دیکھ کر دوبارہ شروع ہونے کی کوشش کردی
اس کاغذ پر یہ جوابات آپ نے خود لکھے ہیں۔ اس میں کوئی سائینس ملوث نہیں کیک کا آپ مجھ سے براہ راست پوچھ سکتے ہو اور بارش کا موسم کے حالات میں معلوم ہو جائے گا۔ اسی طرح۔۔”
کتابوں کی درجہ بندی کے حقیقی اصولوں سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے دماغوں نے اپنے گمان، خیال اور بڑوں کے مبہم رویوں سے خود سے ایک درجہ بندی کی ہوئی تھی سو عرصہ تک ہم سبھی سمجھتے تھے کہ سب سے اوپر قران پاک کے ساتھ چمکیلی جلدوں والی سبھی کتابوں کو باوضو پڑھا جاتا ہے۔ ان دنوں ہم الرحیق المختوم کے ساتھ رکھا بہشتی زیور بھی صرف رمضان میں ہی مطالعہ کرتے۔
اگلے خانے میں آنے والی کتابیں بھی کچھ تنبیہی نگاہوں کے باعث ان دواؤں کی طرح لگا کرتیں جن پر بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی خاص احتیاط درج ہوتی ہے۔ سو اکثرگرمیوں کی خاموش دوپہروں میں کرسی رکھ کر ہم بھی خاص احتیاط سے کچھ بھی ہلائے جلائے بغیر ان کو اتارتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے کہ کس چیز کو ہماری پہنچ سے دور رکھا جا رہا ہے۔
خیر ان اوپری خانوں میں محفوظ کتابوں کی حقیقی تفصیل اور احوال دگر کبھی آغا کی زبانی سنیے گا۔ مجھے تو فقط یہ یاد ہے کہ اس وقت یہی گتھی حل نہ ہوتی تھی کہ نقش چغتائی، دیوان حافظ، میری لائبیریری کے چھپے ان عالمی شہ پاروں کے تراجم یا میراجی سے مفتی تک کی ایسی ہی دوسری کتابوں میں ایسا کیا تھا جسے ہماری پہنچ سے دور رکھا جانا چاہیے تھا۔ کیونکہ نچلے خانوں میں تاریخی ناولوں اور ڈایجسٹوں میں بہت سلیس الفاظ میں وہی تحریریں اور وہم قبا میں ملبوس وہی تصویریں ہماری دسترس سے قریب تر، قطار در قطار پڑی تھیں۔ شائد بڑوں کے ذہنوں میں ان کتابوں کی چھپائی میں سیاہی کی شدت ان کی خود حفاظتی کی دلیل تھی۔ جو ایک حد تک سچ بھی ہے۔۔ مگر کیا کیا جائے کہ کتاب کا فاقہ بری شے ہے۔۔
سو ایسے ہی ایک دن ہم نے دیوان حافظ دریافت کیا۔ جس کی ابتدا میں حافظ خوانی اور اردو مقدمہ میں تفصیل سے فال نکالنے اور اس کے مصدقہ ہونے وغیرہ وغیرہ کے بارے میں حافظ پر حلف اٹھائے ہوئے تھے۔ گرمیوں کی گرم دوپہروں میں ہم لوگ گھٹنے موڑے، سر جوڑے ایسے ہی آہستہ آہستہ سوالات کرکے حافظ کو شائد ہلکان کر دیا کرتے۔ شروع میں ہم سوالات باآواز بلند کرتے تھے اورایک ساتھ آنکھیں میچ لیتے تاکہ فال کو زیادہ سے زیادہ خالص کیا جا سکے۔
بعد میں سوالات میں ایک پرائیویسی آتی گئی اور ہم ذہن میں جو سوچتے اس کا جواب چاہتے اور باقیوں کو کچھ اور ہی بتاتے۔ اور حاضرین آنکھیں کھلی رکھتے مبادا فال میں کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ وہ بچپن کے دن تھے۔ ہر سوال کا جواب عموما صحیح ہوتا۔ اور مقدمہ میں تنبیہہ بھی تو تھی کہ فال بالکل سچ بتاتی ہے۔ اگر کوئی کسر ہے تو ہمارے یقین میں۔ اور یقین میں ہم نے کبھی کمی نہیں رکھی۔
داہنی سمت کے صفحے کا پہلا شعر سوچ کر جب بھی میں نے کلام حافظ کھولا ایک ہی شعر نکلا اور بلاشبہ زندگی کے تمام مسائل کا حل اسی شعر سے ہو جاتا تھا۔۔۔ شعر مجھے یاد نہیں ترجمہ کچھ ایسے تھا کہ صبح دم جب نسیم صبح جنت کی جانب سے آتی ہے تو خوشبوئے دوست لاتی ہے۔ وغیرہ۔۔ معلوم نہیں اس کو میں نے ہر مسئلے پر کیسے فٹ کیا۔ لیکن بہت بعد میں مجھ پر کھلا کیہ کثرت فال سے چند صفحات ڈھیلے ہوچکے تھے اور بار بار مخصوص مقامات سے کھل کھل جاتے ۔۔
بہرحال میری ناسمجھی کے وہ دن گزر گئے ہیں۔ اور اردو میں لکھی کتابیں ہندسوں اور علامات میں لکھی کتابوں سے بہت دور رہ گئی ہیں۔ اب جو کتابیں درجہ بدرجہ میری الماریوں میں چنی ہیں ان کو میں نے کبھی نہیں پڑھا۔ مسلسل دیکھنے سے مجھے ان کے نام زبانی یاد ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی۔۔ پائیتھون، سیکیورٹی اسینشلز، راوٹنگ اینڈ سویچنگ۔۔ ان کو کبھی کھولو تو ان میں لفظ کم اور ھندسے زیادہ ہوتے ہیں۔ میپنگ ٹیبلز اور آئی پی ماسکنگ۔۔ سب نیٹس ڈیزائن اور لیرز اف کمیونیکیشن۔۔ کیا میں کچھ سینس بنا رہی ہوں۔۔ شائد نہیں۔ یہ میری ناسمجھی کے نئے دن ہیں۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے حافظ کے فالنامے کو ایٹ بال سکرپٹ پر منطبق کرنے کی کوشش کی آپ بھی دیکھیں اور لطف اٹھائیں۔
اگر مزہ نہیں آیا تو یہاں پر روایتی ایٹ۔بال انداز میں کوشش کریں۔
اس سکرپٹ کا انتخاب صرف تفریح کی خاطر کیا گیا ہے اور تبدیلی میں کسی قسم کے سنجیدہ مقاصد کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔
شطرنج اور ایک صورت خرابی کی
تو کون جیتا آخری گیم میں، میں نے رات کے کھانے پر موضوع نکالا۔
جیتا۔۔!! بہنا کی بڑبڑاہٹ۔ ہم نے ہار جیت کے بغیر کھیلا ہے۔۔
پھر کیسے کھیلتے ہیں اسکو
تو مہروں کی تفصیل کچھ ان کی زبانی:
بادشاہ اور وزیر جو ہیں وہ ماں باپ ہیں۔
(انہیں تو اس نے بورڈ پر بھی نہیں رکھنے دیا۔۔ احتجاجی صدا۔ میرا اشارہ۔ خاموش۔۔ سننے دو بھئی)
ہاں ماں باپ وہ باہر کھڑے دیکھ رہے ہیں
اچھا پھر کیا ہوتا ہے۔
کچھ نہیں۔ بس سارے پیادے لڑکیاں ہیں۔ (ہمم) انکے لمبے ڈریسز(ہممم) تو وہ بیلے ڈانس کرتی ہیں فلور پر
سارے دوسرے مہرے لڑکے ہیں(ہاہا) وہ ڈانس نہیں کرتے۔
تو کیا کرتے ہیں
وہ فٹبال کھیلتے ہیں۔
گیم ختم کیسے ہوتی ہے۔
جب لڑکیاں ڈانس کرکے تھک جائیں گی۔ لڑکے فٹبال کھیلتے کھیلتے بورڈ کی دوسری سمت چلے جائیں گے۔ ان کے ماں باپ انکو بلا لیں گے تو ۔۔۔
(یا اگر قسمت اچھی ہو تو کھانے کا وقت ہو جائے گا۔۔۔ احتجاجی صدا)
گیم کے اصول تو جلد یا بدیر اسکو ازبر ہو جائیں گے لیکن پرانے کھیل کا نیا پن روز روز کہاں ملے گا۔
چودھویں کا چاند
شام پانچ بجے مجھے چاند کے بھدے پھیکے پن کے علاوہ کسی چیز کی توقع نہیں تھی۔ سو حسب عادت دیکھے بغیر ہی واہ واہ کا نعرہ بلند کر دیا۔ پھر واہ واہ کی بازگشت دو ایک مرتبہ اور بلند ہوئی تو میں نے سرسری نظر داہنی طرف ماری۔ چاند واقعی بڑا اور ضرورت سے زیادہ اجلا تھا۔
بصیرہ عنبرین۔۔ یہ سچ مچ تم ہو یار بہت زیادہ خوشی ہوئی تم کو یہاں پر دیکھ کر۔ اور میں…
رافعہ خان آج بھی اتنا اچھا لکھ رہی ہیں جیسا کہ شروعات میں لکھ رہی تھیں۔ ماشاءاللہ
یہ کتاب بہت اچھی ہے۔رافعہ کی پہلی کتاب کی طرح۔کیا مصنفہ کا اصل نام رافعہ وحید یے۔
'A blessing cannot be saved.' Aptly put. Jo buray waqt kay liye jama' karay ga, uss par bura waqt aaye…
"ابھی ویسے ایسے لگ رہا ہے کسی نے جلدی میں انقلاب کا ڈبہ کھولتے ہوئے اسے فرش پرگرا دیا ہے"كمال…
میجیکل!!!!کم الفاظ میں اتنا خوبصورت لکھنا، بہت کم لوگوں کے پاس صلاحیت ہوتی ہےلکھتی رہئیے :)
ماشاءاللہ کافی اچھا لکھ لیتی ہو آپ۔ آپ جس طرز کا لکھتی ہو بہت خوب اور عمدہ لکھتی ہو لیکن…
سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہا جا سکتا کہ "بہترین"۔۔۔ اور "بہت ہی عمدہ"۔۔۔
بہت خوب۔۔۔ آپکی پچھلی تحریر بھی کُچھ طویل ہونے کے باوجود پڑھ کر مزہ آیا اور یہی حال اس مرتبہ…
محترمہ رافعہآپ کا بلاگ بہت سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے، اور آپ کی تحریر کا انتظار بھی رہتا ہے-بہت شکریہ