انسپیریشن



کوئی کوئی دن ہماری زندگی میں ایسے آتا ہے کہ ہمیں دنیا اپنے قدموں کے نیچے محسوس ہوتی ہے۔ روزمرہ کی چیزیں ہمارے ہاتھوں میں کھیل رہی ہوتی ہیں۔ ہم اپنے چھوٹے سے دائرے کے شہنشاہ ہوتے ہیں۔ اور سبھی کچھ دست بستہ ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔  ایسے محسوسات کا مآخذ کیا ہوتا ہے۔۔ کوئی چھوٹی سی پوری ہوئی خواہش، کوئی اچھا سا خواب، کوئی مدھر سا گیت۔ وجہ کچھ بھی ہو۔ یہ بہت کارساز لمحات ہوتے ہیں۔  ہم جیسے چاہیں اس دن کو بنا لیں۔ کچھ بہتر، کچھ اچھا۔ ایسے کسی لمحے کو پکڑ لینا اور ضائع نہ ہونے دینا چاہیے۔


ایسا ہی کچھ لکھاری کے ساتھ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی لفظ اور خیالات ہمارے بہت قریب آ جاتے ہیں۔ ایک ہاتھ کے فاصلے پر۔ اور بالکل موم کی طرح ہمارے ہاتھوں، دماغ اور زبان پر بنت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ جیسے چاہیں ان کو ڈھال لیں۔ شائد اسی کو انسپیریشن کہتے ہیں۔ لفظ جب ہاتھوں میں پگھلتے ہیں تو موم نہیں رہتے، آب زر بن جاتے ہیں۔ ان لمحوں کی کہانی جب اپنی طرف کھینچتی ہے تو لوٹنے کا کوئی محل نہیں ہوتا۔۔ پر زندگی اپنے موقع محل خود بناتی ہے۔۔ جگہ جگہ رک کر لفظوں کو خیالات کی ڈگڈگی سے تال ملاتے دیکھنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔

دیوان حافظ، فالنامہ اور ایٹ بال

“اور آپکا پسندیدہ رنگ”

“اور آپ کا پسندیدہ نمبر۔۔”
“اور آپ کا سوال۔۔”
“کیا ہم ویک اینڈ پر زو جائیں گے؟”
“کیا میرا دوست آج کھیلنے آئے گا؟”
“کیا ماما کیک بنائیں گی؟”
“کیا میرا ٹیسٹ اچھا ہوگا؟”
“کیا آج بارش ہوگی؟”ساری صبح لگا کر بنائے گئے کاغذ کے فورچون ٹیلر سے وہ ہاں/ ناں والے سوالات پوچھ پوچھ کر ہلکان ہو رہے تھے۔


لیکن بچوں کو ہر طرح کی علتوں سے دور رکھنا، ان کو ہر وقت صحیح غلط کی تمیز دیتے رہنا اور اصلاح کرنے کا کوئی موقع نہ جانے دینا اکثر والدین کی طرح میرا بھی پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس وجہ سے میں نے آج تک انہیں ایٹ بال نہیں لے کر دی۔ لیکن انہوں نے دوسرا رستہ نکال لیا ہے۔ میں نے موقع دیکھ کر دوبارہ شروع ہونے کی کوشش کردی

اس کاغذ پر یہ جوابات آپ نے خود لکھے ہیں۔ اس میں کوئی سائینس ملوث نہیں کیک کا آپ مجھ سے براہ راست پوچھ سکتے ہو اور بارش کا موسم کے حالات میں معلوم ہو جائے گا۔ اسی طرح۔۔”

“ہم صرف تھوڑے سے فن کے لیے کر رہے ہیں ماما۔۔”
انہوں نے مدافعاتی بیزاری سے احتجاج کیا اور سوال پوچھنے والی چہک سرگوشیوں میں ڈھل گئی۔ مجھے ہنسی آ گئی اور میں بظاہر وہاں سے ہٹ گئی۔ مجھے ہلکے کیسری رنگ کا دیوان حافظ مترجم یاد آگیا تھا۔بچپن میں ہمارے گھر میں متنوع موضوعات پر اردو کی کتابوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ ان دنوں جب اشتیاق احمد کی قوت تحریر ہماری رفتار مطالعہ سے بہت کم تھی، نئے درجوں کی کورس کی ساری کتابوں کی ساری کہانیاں ہفتہ بھر میں ختم ہو جاتی تھیں، ہمیں درجہ بدرجہ الماریوں میں چنی ان کتابوں میں جھانکنے اور کتابیں چھانٹنے کا اتفاق اکثر ہوتا تھا۔

کتابوں کی درجہ بندی کے حقیقی اصولوں سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے دماغوں نے اپنے گمان، خیال اور بڑوں کے مبہم رویوں سے خود سے ایک درجہ بندی کی ہوئی تھی سو عرصہ تک ہم سبھی سمجھتے تھے کہ سب سے اوپر قران پاک کے ساتھ چمکیلی جلدوں والی سبھی کتابوں کو باوضو پڑھا جاتا ہے۔ ان دنوں ہم الرحیق المختوم کے ساتھ رکھا بہشتی زیور بھی صرف رمضان میں ہی مطالعہ کرتے۔

اگلے خانے میں آنے والی کتابیں بھی کچھ تنبیہی نگاہوں کے باعث ان دواؤں کی طرح لگا کرتیں جن پر بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی خاص احتیاط درج ہوتی ہے۔ سو اکثرگرمیوں کی خاموش دوپہروں میں کرسی رکھ کر ہم بھی خاص احتیاط سے کچھ بھی ہلائے جلائے بغیر ان کو اتارتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے کہ کس چیز کو ہماری پہنچ سے دور رکھا جا رہا ہے۔

خیر ان اوپری خانوں میں محفوظ کتابوں کی حقیقی تفصیل اور احوال دگر کبھی آغا کی زبانی سنیے گا۔ مجھے تو فقط یہ یاد ہے کہ اس وقت یہی گتھی حل نہ ہوتی تھی کہ نقش چغتائی، دیوان حافظ، میری لائبیریری کے چھپے ان عالمی شہ پاروں کے تراجم یا میراجی سے مفتی تک کی ایسی ہی دوسری کتابوں میں ایسا کیا تھا جسے ہماری پہنچ سے دور رکھا جانا چاہیے تھا۔ کیونکہ نچلے خانوں میں تاریخی ناولوں اور ڈایجسٹوں میں بہت سلیس الفاظ میں وہی تحریریں اور وہم قبا میں ملبوس وہی تصویریں ہماری دسترس سے قریب تر، قطار در قطار پڑی تھیں۔ شائد بڑوں کے ذہنوں میں ان کتابوں کی چھپائی میں سیاہی کی شدت ان کی خود حفاظتی کی دلیل تھی۔ جو ایک حد تک سچ بھی ہے۔۔ مگر کیا کیا جائے کہ کتاب کا فاقہ بری شے ہے۔۔

سو ایسے ہی ایک دن ہم نے دیوان حافظ دریافت کیا۔ جس کی ابتدا میں حافظ خوانی اور اردو مقدمہ میں تفصیل سے فال نکالنے اور اس کے مصدقہ ہونے وغیرہ وغیرہ کے بارے میں حافظ پر حلف اٹھائے ہوئے تھے۔ گرمیوں کی گرم دوپہروں میں ہم لوگ گھٹنے موڑے، سر جوڑے ایسے ہی آہستہ آہستہ سوالات کرکے حافظ کو شائد ہلکان کر دیا کرتے۔ شروع میں ہم سوالات باآواز بلند کرتے تھے اورایک ساتھ آنکھیں میچ لیتے تاکہ فال کو زیادہ سے زیادہ خالص کیا جا سکے۔

بعد میں سوالات میں ایک پرائیویسی آتی گئی اور ہم ذہن میں جو سوچتے اس کا جواب چاہتے اور باقیوں کو کچھ اور ہی بتاتے۔ اور حاضرین آنکھیں کھلی رکھتے مبادا فال میں کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ وہ بچپن کے دن تھے۔ ہر سوال کا جواب عموما صحیح ہوتا۔ اور مقدمہ میں تنبیہہ بھی تو تھی کہ فال بالکل سچ بتاتی ہے۔ اگر کوئی کسر ہے تو ہمارے یقین میں۔ اور یقین میں ہم نے کبھی کمی نہیں رکھی۔

داہنی سمت کے صفحے کا پہلا شعر سوچ کر جب بھی میں نے کلام حافظ کھولا ایک ہی شعر نکلا اور بلاشبہ زندگی کے تمام مسائل کا حل اسی شعر سے ہو جاتا تھا۔۔۔ شعر مجھے یاد نہیں ترجمہ کچھ ایسے تھا کہ صبح دم جب نسیم صبح جنت کی جانب سے آتی ہے تو خوشبوئے دوست لاتی ہے۔ وغیرہ۔۔ معلوم نہیں اس کو میں نے ہر مسئلے پر کیسے فٹ کیا۔ لیکن بہت بعد میں مجھ پر کھلا کیہ کثرت فال سے چند صفحات ڈھیلے ہوچکے تھے اور بار بار مخصوص مقامات سے کھل کھل جاتے ۔۔

بہرحال میری ناسمجھی کے وہ دن گزر گئے ہیں۔ اور اردو میں لکھی کتابیں ہندسوں اور علامات میں لکھی کتابوں سے بہت دور رہ گئی ہیں۔ اب جو کتابیں درجہ بدرجہ میری الماریوں میں چنی ہیں ان کو میں نے کبھی نہیں پڑھا۔ مسلسل دیکھنے سے مجھے ان کے نام زبانی یاد ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی۔۔ پائیتھون، سیکیورٹی اسینشلز، راوٹنگ اینڈ سویچنگ۔۔ ان کو کبھی کھولو تو ان میں لفظ کم اور ھندسے زیادہ ہوتے ہیں۔ میپنگ ٹیبلز اور آئی پی ماسکنگ۔۔ سب نیٹس ڈیزائن اور لیرز اف کمیونیکیشن۔۔ کیا میں کچھ سینس بنا رہی ہوں۔۔ شائد نہیں۔ یہ میری ناسمجھی کے نئے دن ہیں۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے حافظ کے فالنامے کو ایٹ بال سکرپٹ پر منطبق کرنے کی کوشش کی آپ بھی دیکھیں اور لطف اٹھائیں۔

اپنا سوال لکھیے: ۔   (یاد رہے کلام حافظ کچھ ستم ظریف واقع ہوا ہے۔)


جواب:۔

 

  اگر مزہ نہیں آیا تو یہاں پر روایتی ایٹ۔بال انداز میں کوشش کریں۔

سوال:۔


جواب:۔


اس سکرپٹ کا انتخاب صرف تفریح کی خاطر کیا گیا ہے اور تبدیلی میں کسی قسم کے سنجیدہ مقاصد کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔

شطرنج اور ایک صورت خرابی کی

چھوٹی کا تتلاتا لہجہ صاف ہوتا جا رہا ہے۔ قد نکالنے کے ساتھ ساتھ اس کی انا بھی سر اٹھا رہی ہے سو ہار ماننا اب اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اسے معلوم ہے سب اس سے زیادہ جانتے ہیں لیکن اس کا سب سے آسان حل تو یہی ہے کہ نہ اپنی کم علمی کا اعتراف کیا جائے اور نہ ہی کسی اور کو جیتنے دیا جائے۔ سو پچھلی شب بہنا اور بھائی کو شطرنج کھیلتا دیکھ کر بہت شدت سے اپنے نظر انداز ہونے کا غم ہوا۔ جس کو غلط کرنے کے لیے مجھے بیچ میں دخل دینا پڑا۔ تو بھائی نے جب پڑھنے کے لیے چھوٹی سی بریک لی تو شطرنج کا بورڈ، بہنا دونوں ان کے رحم و کرم پر آگئے۔ 

 

اب جو نئی گیم انہوں نے بنائی ہے اگر میں ان کی ہم سنی کا شرف رکھتی تو ضرور پیٹنٹ کے لیے اپلائی کر دیتی۔ 
تو کون جیتا آخری گیم میں، میں نے رات کے کھانے پر موضوع نکالا۔ 
جیتا۔۔!! بہنا کی بڑبڑاہٹ۔ ہم نے ہار جیت کے بغیر کھیلا ہے۔۔

ہاں ماما۔ اس میں کوئی نہیں جیتتا۔۔ چھوٹی بولی
پھر کیسے کھیلتے ہیں اسکو
تو مہروں کی تفصیل کچھ ان کی زبانی:
بادشاہ اور وزیر جو ہیں وہ ماں باپ ہیں۔
(انہیں تو اس نے بورڈ پر بھی نہیں رکھنے دیا۔۔ احتجاجی صدا۔ میرا اشارہ۔ خاموش۔۔ سننے دو بھئی)
ہاں ماں باپ وہ باہر کھڑے دیکھ رہے ہیں
اچھا پھر کیا ہوتا ہے۔
کچھ نہیں۔ بس سارے پیادے لڑکیاں ہیں۔ (ہمم) انکے لمبے ڈریسز(ہممم) تو وہ بیلے ڈانس کرتی ہیں فلور پر
سارے دوسرے مہرے لڑکے ہیں(ہاہا) وہ ڈانس نہیں کرتے۔
تو کیا کرتے ہیں
وہ فٹبال کھیلتے ہیں۔

گیم ختم کیسے ہوتی ہے۔
جب لڑکیاں ڈانس کرکے تھک جائیں گی۔ لڑکے فٹبال کھیلتے کھیلتے بورڈ کی دوسری سمت چلے جائیں گے۔ ان کے ماں باپ انکو بلا لیں گے تو ۔۔۔
(یا اگر قسمت اچھی ہو تو کھانے کا وقت ہو جائے گا۔۔۔ احتجاجی صدا)

گیم کے اصول تو جلد یا بدیر اسکو ازبر ہو جائیں گے لیکن پرانے کھیل کا نیا پن روز روز کہاں ملے گا۔

چودھویں کا چاند

کل شام کو جب سب نکلے تو میرا دماغ حسب عادت سب کچھ ساتھ ہی اٹھا لایا۔ وہی رات کے کھانے کا مینو، پڑوسن سے کرنے والی گفتگو، سالانہ امتحانات کی ورک شیٹس کی فکر، سیلوں کی تاریخیں، چھٹیوں کا نقشہ۔۔۔ گاڑی کے باہر کے مناظر سے بے نیاز اور گاڑی کے اندر ( اپنے اور دوست کے) بچوں کے مناظر سے بےزار میں کچھ غیر حاضر سی تھی جب چھوٹی کی بڑی سی آواز نے مجھے چونکا دیا۔۔ ماما ۔۔ ۔کتنا بڑا چاند۔۔۔

 شام پانچ بجے مجھے چاند کے بھدے پھیکے پن کے علاوہ کسی چیز کی توقع نہیں تھی۔ سو حسب عادت دیکھے بغیر ہی واہ واہ کا نعرہ بلند کر دیا۔ پھر واہ واہ کی بازگشت دو ایک مرتبہ اور بلند ہوئی تو میں نے سرسری نظر داہنی طرف ماری۔ چاند واقعی بڑا اور ضرورت سے زیادہ اجلا تھا۔


سورج غروب ہونے سے بھی پہلے ایسا چاند۔۔ میں تھوڑی حیران تھی
چاند بہت قریب ہے۔ اور تمہیں حیرانی ہوگی کہ کل سال کا سب سے بڑا پورا چاند ہے۔ احسن ہمیشہ کی طرح حیرانی کو ایک درجہ آگے لے گئے۔
کیا واقعی۔ اب میں نے ذرا غور کیا۔ اور بہت دنوں بعد اس کی خوبصورتی کو ٓنکھ بھر کر دیکھا۔ بلکہ باقی رستہ میں نے چاند ہی کو کھوجتے گزارا۔

گھر آ کر ویب پر چیک کیا تو معلوم ہوا یہ واقعی سال کا بلکہ دس سال کا سب سے بڑا پورا چاند ہے جو آج تین سے چھے پاکستانی رات تین ۔۔ نارتھ امیریکہ میں دیکھائی دے گا۔ جب چاند اپنے مدار میں زمین کے قریب ترین ہوتا ہے تو اپنے معمول کی جسامت سے کچھ دس فیصد زیادہ بڑا دکھتا ہے جسے ہم عمومی آنکھ سے اکثر نہیں دیکھ پاتے۔

ویسے تو چاند کو دیکھنے کی بھی ایک لگن اور عمر ہوتی ہے۔ لیکن کیا واقعی زندگی گزارتے گزارتے ہم ان چھوٹی چھوٹی خوبصورتیوں کو یونہی بےکار سمجھ کر نظر انداز کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ بچوں کا ساتھ مجھے مالک کی طرف سے دنیا دیکھنے کا ایک چھوٹا سا ریفریشر کورس لگتا ہے جس میں ہماری آنکھ اور دل تازہ دم ہو کر نئے سرے سے محسوس کرنا شروع کرتے ہیں۔

محبت


قدیم یونانی مفکروں نے محبت کو سمجھنے کے لیے چار حصوں میں بانٹ دیا تھا۔
Erosمحبت جو خواہش سے وابستہ ہے
Phileoدوستی کی محبت
Storage خاندان اور رشتہ داری کی محبت
agape خواہش سے عاری افلاطونی عشق ، دیوانگی
وقت اور حالات کے تحت اس ازلی جذبہ نےبہت سی ارتقائی شکلیں اختیار کیں۔ کہیں اسے عشق حقیقی اور مجازی کی تفریق دی گئی کہیں محض ہارمونز کا اتار چڑھاؤ کہ کر برطرف کر دیا گیا۔ کہیں کسی مصور کا فن پارہ بنا تو کہیں کسی شاعر کی نوا۔ لیکن اسرار خودی کی طرح محبت کے اسرار گہرائی میں جانے سے گہرے ہوتے جاتے ہیں۔

گو یہ ایک جذبہ ہے اور دوسرے جذبوں کی طرح اس کا بھی دورانیہ ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر خطہ میں محبت کے اس جذبے پر اتنی بحث ہو چکی، ہر ادب میں اس پر اتنا لکھا جا چکا کہ اسے سیدھے سبھاؤ بیان کرنا بذات خود ایک جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لیکن اتنا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی حقیقت جنس مخالف کی وقتی کشش سے کچھ زیادہ ہی ہے۔

بچپن میں مجھے محبت سے بہت محبت تھی۔ لگتا تھا دینا کی ہر شے ایک دوسری سے بندھی ہے اور یہ محبت کا شاخسانہ ہے۔ کشش ثقل زمیں کی اختیاری قوت ہے جو ہمیں خود میں سمائے ہوئے ہے۔ ستارے اور سیارے ایک دوسرے کے گرد ایک ازلی چاہ میں بندھے گھومتے ہیں۔ ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا خدا محبت میں لپٹ کر کریم تر ہے۔ بچے اور والدین، ہمسائے اور جانور، راہوں میں چلتے لوگ، ، دوسری قومیں، انجانے ملک۔ زمیں میں دبا لاوا۔ زندگی، موت اور موت کے بعد کی زندگی۔۔۔ محبت ہر روپ میں دلکش تھی اور میری ذات اس سب کا ایک حصہ۔ محبت میرے ارد گرد میلوں پر پھیلی تھی۔ اور قرنوں پر۔ محبت کا متضاد نفرت نہیں تھی۔ بس کم محبت تھی اور زیادہ محبت۔

جب بڑی ہوئی تو سب کی طرح مجھے ارد گرد کھنچی لکیریں نظر آنے لگیں جو تقسیم کرتی ہیں۔ بہت سی حدود۔۔ جو ہمیں بانٹ دیتی ہیں۔ سرحدی حدود، مذہبی، سماجی اور ذہنی حدود۔۔ قدیم، جامد اور بے لوچ۔ ایسی حدود جن میں ہم خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ جن کو ہم مقدس گردانتے ہیں۔ جن کو ہم پھاند نہیں سکتے۔ جن میں ہم بھٹک نہیں پاتے۔ جن میں ہم محصور ہو جاتے ہیں اور وہیں بس جاتے ہیں۔ اسی میں ہماری معاشرتی اکائیوں کی بقا کا تصور بنایا گیا ہے۔ سوال اٹھا: کیا محبت ایک غیرضروری، بری شے ہے؟ جواب ملا۔ محبت کی تشریح پر منحصر ہے۔ یہ درد دل یا لب پہ آتی کوئی دعا ہو تو صدقہ جاریہ ہے اور اگر ایکسٹرا میریٹل ہو تو عزت سادات تو جائے گی، سر بھی نہیں بچے گا۔

زندگی کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ محبت سوز دل ہے جو جلاتی نہیں، جلا دیتی ہے۔ شکستگی کی یہ تابداری پھر جو بھی روپ دھارتی ہے وہ وقت کی دھند سے آگے نکل جاتا ہے، اپنے نشان پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ انسانوں میں محسنین کی ریت ڈالتا ہے۔ مگر اس کی بہت صورتیں اور رنگ ہیں۔ اتنے کہ گننا چاہو تو نہ گن سکو۔ شائد یہ اس جذبے کی ہمہ گیری اور خوبصورتی ہی ہے جو اسے آفاقی سمجھا جاتا ہے۔ محبت کے موضوع پر لکھتے ہوئے اقتباسات کی کوئی کمی درپیش نہیں ہوتی کہ ہر شخص اس پر کچھ نہ کچھ کہ چکا ہے لیکن نوک قلم پہ کچھ سطور ہیں

۔(محبت) ۔۔ آب جو ہے
جو دلوں کے درمیان بہتی ہے
خوشبو ہے
کبھی پلکوں پہ لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اتر جائے
تو منظر اور پس منظر میں شمعیں جلنے لگتی ہیں
کسی بھی رنگ کو چھو لے
وہی دل کو گوارا ہے
کسی مٹی میں گھل جائے
وہی مٹی ستارہ ہے

محبت جوڑتی ہے۔ انسان کو انسان سے، زمین کو باسیوں سے، بندے کو رب سے، پودے کو مٹی سے، پرندوں کو ڈار سے۔ تو یہ ایک ناطہ ہے، ایک تعلق ہے جو کسی مابعد طبیعاتی فلسفے میں، کسی سائنس میں، کسی ادبی تحریر میں مکمل نہیں بیان ہو پاتا لیکن کسی ایک لمحے میں جیسے اس کا پورا ادراک سما جاتا ہے۔ پھر باقی تفصیلات اضافی ہو جاتی ہیں۔

مشاہدہ یہ کہتا ہے، اپنی آفاقیت سے قطع نظر محبت وہ واحد شے نہیں ہے جو کائینات کے ارتقاء، ترقی اور تبدیلی کی ضامن ہے۔ کیونکہ فطرت کا تسلسل اور وجود اور توازن متضادات کے اصول پر کاربند ہے۔ مرکزمائل اور مرکزگریز قوتیں باہم مل کر چیزوں کو ایک مرکب صورت دیتی ہیں۔ تو محبت کا متضاد کیا ہے۔ نفرت؟؟ نہیں نفرت اصل میں اس مرکز گریز قوت کا حاصل نفع ہے۔ محبت پھیل کر چیزوں کو گھیراؤ میں لے لیتی ہے تو کوئی ایسی شے جو پھیلاؤ نہ ہونے دے۔ جو بند کردے۔ جو بڑھنے نہ دے۔ جوحد بن جائے وہی محبت کا متضاد ہے۔

مجھے لگتا ہے ‘میں’ وہ شے ہے جو میں اور تو کا فرق مٹانے نہیں دیتی۔ ‘میں’ وہ شے ہے جو محبت کو حد سے آگے جانے نہیں دیتی۔ جو راستہ روک دیتی ہے۔ کہکشاؤں کو ایک دوسرے میں گرنے نہیں دیتی۔ ستاروں کو رستہ بھتکنے نہیں دیتی۔ سمندر کو بے کنار ہونے سے روکتی ہے۔ فرد کو ملت میں مدغم نہیں ہونے دیتی۔ میں ذات کو مستحکم کرتی ہے۔ ذات کی یہ بندش ایک طرف ارتقاء کو مکمل کرنے میں محبت کا ساتھ دیتی ہے۔ تو دوسری جانب فرد کو تنہائی اور اکیلے پن کا تحفہ دیتی ہے۔

محبت کو سمجھنے کے لیے ہم اکثر داستانوں اور استعاروں کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن اس کے متضاد کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ بھی ہے یہ محبت نہیں ہے۔ تو محبت اپنے مرکزگریز کے مساوی ہونے کے باوجود زیادہ اہمیت و حیثیت کی حامل ہے۔ بنیادی حوالہ ہے۔ سوال اٹھے گا، ہم محبت کے اس ایک جذبے کو باقی بنیادی جذبوں بھوک، خوف، درد وغیرہ سے زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں۔ اس پر اتنی بحث کیوں کرتے ہیں۔ اس کو اتنا اختیار دے کر خود بے اختیار کیوں بن جاتے ہیں۔ اس پر فخر کیوں کرتے ہیں۔

شائد اس لیے کہ یہ جذبہ ہمیں جھوٹی، سچی امیدوں سے گزار کرمحرک رکھتا ہے۔ شائد اس لیے کہ باقی جذبوں سے کہیں زیادہ اس کا تعلق خوشی سے ہے، جو محبت کے ہونے کے خیال سے ہی ہمارا اندر اور باہر روشن کر دیتی ہے۔ یہی جذبہ سب سے زیادہ ہم مالک سے شئیر کرتے ہیں۔ اس نے ہی تو بتایا کہ خوب جان لو ۔۔۔۔ پھر ایسوں سے میں محبت نہیں کرتا۔۔۔ اب اور کیا کہیں کہ ادا کیا ہے۔ یہاں پیازی اشکوں والے رقیب اور عشق ازل گیر کے مقابلے کا کوئی مقام نہیں لیکن حقیقت ہے کہ خوشی صرف ہمیں نہیں ملتی، اپنی تمام تر بےنیازی کے باوجود کسی کے اس کی طرف لوٹ آنے پر مالک بھی خوش ہوتا ہے۔ توبے اختیاری سرشت میں ڈل چکی ہے اس سے لڑنا ناممکن ہے۔ خوشی اور محبت کا بندھن بہت اٹوٹ ہے۔ درد بعد میں آتا ہے۔ جب مرکز مائل کا مرکز گریز سے ٹکراؤ شروع ہوتا ہے۔ یہاں حسن توازن بگڑتا ہے۔

جی ہاں، محبت کا توازن بگڑے تو اس کی شکل بھی بگڑ جاتی ہے۔ محبت اپنی پہلی انتہا میں سپردگی اور قبولیت ہے۔ اور دوسری انتہا میں غلبہ اور تسلط ۔ ۔ کبھی کبھی یہیں پر اجتماعی ارتقاء بے معنی ہوجاتا ہے۔ اور کبھی کبھی ان دونوں انتہاؤں میں کچھ خاص فرق نہیں رہتا۔ کیا، کیوں اورکیسے کے سوالات ختم ہو جاتے ہیں۔ دشت اور استخوان سے آپ سوال کریں گے بھی کیا۔ سو محبت میں کچھ شرطوں اور توازن کی جگہ ضرور رکھنی چاہیے۔ ارے۔۔ بھول گئے دل کےساتھ ساتھ پاسبان عقل بھی توہے توشہ خاص میں ۔۔