گوگل ٹرانسلیٹ

پچھلے روز ایک دوست نے، کہ اردو سمجھنا انہیں مشکل ہے، میری ایک تحریر کا ترجمہ پوچھا۔ میں نے مصروفیت کی وجہ سے گوگل ٹرانسلیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ بعد میں استفسار پر کہنے لگیں یا تو یہ کوئی بہت گہری بات ہے یا ترجمہ میں کوئی مسئلہ ہے کیونکہ مفہوم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب میرے لیےگہری بات کہ دینا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ گوگل سے کسی غلطی کا احتمال۔ سو میں کچھ کنفیوژ سی ہوگئی اور خود چیک کرنے کی کوشش کی۔

everything is awesome : P

I imagined two hours of slow torture by bright-coloured animated bricks, but the Lego movie was over-delivered; why else would it start poking us from the very first scene with its pointy satire and sassy, layered irony while kids laugh hilariously at something ELSE. Plus, it reminded me of endless chains of those first inventions, not very different from the one Emmet made … yes, joining two bricks together.

The Lego Movie

فروزن رین

ہر سال یہاں ایک دن ایسا ہوتا ہے جب بہت شدید برف باری اور پھر فروزن رین کے بعد انتہائی ٹھنڈ کے باوجود بہت شدید دھوپ نکلتی ہے ۔ جس میں ہر منجمد سطح چمکیلے کانچ کی بنی ہوئی آرائش لگتی ہے۔ اور کبھی تیز ہوا میں بلوریں درخت روشنی کو اتنے زاویوں سے منعکس کرتے ہیں کہ دیکھتے جانے کو دل چاہتا ہے۔ 

تتلانا منع ہے!!۔

کچھ تحقیقات کے مطابق بچوں سے بچہ بن کر بات کرنا، الٹے سیدھے جملے بنا کر ان کو ہنسانا۔۔ ناموجود الفاظ دہرانا،  تتلانا  مستقبل میں ان کی زباندانی کے لیے نقصان دہ ہے۔ جو منطقی طور پر معاشرے اور زبان کی تہذیب کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ اپنے بچوں سے پیچیدہ اور مشکل الفاظ میں بات کرتے ہیں ان کی زبان کی صفائی اور مہارت میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتاہے۔ اس لیے بعض والدین کو بچوں کا تتلانا بہت مضحکہ خیز لگتا ہے ۔ بار بار وہ ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یا انہیں چپ کراتے رہتے ہیں۔

ایک خوبصورت دن

تاریخ فردا پر ایک نظر۔۔ ڈاکٹر علی شریعتی





۔”تاریخِ فردا” ایک نیا انقلابی پیرائہ خیال ہے۔ کیونکہ تاریخ کو ہم ہمیشہ سے ماضی کا عکاس سمجھتے رہے ہیں۔ لیکن آج کی دنیا شائد اس بات کا ادراک کر چکی ہے کہ انسان کو اپنے ماضی ہی کی نہیں فردا کی تاریخ بھی لکھنی ہوتی ہے۔ اس خیال کو پہلے سمجھ لیا جاتا تو تاریخ بھی ایک حقیقی سائنس کے طور پر لی جاتی۔ لیکن اس کی قدر تبھی بڑھے گی اور ماضی کے انسان کا مطالعہ محض تبھی سود مند ہوگا اگر ہم اس سے اپنے آج اور کل کو سمجھنے میں مدد لے سکیں۔ ہرتہذیب اور معاشرے میں تاریخ ماضی کو افراد کی بجائے ادوار کے حوالے سے بیان کرتی ہے۔ گو ان ادوار میں انسانوں کے خیالات اور میلانات ہی اس دور کی خاص ہیئت کی توجیہ ہوتے ہیں لیکن اس دور کی مفرد خصوصیات اور مقاصد ہوتے ہیں جو اسے سابقہ ادوار سے ممتاز کرتے ہیں۔


سو اگر ہر دور کو ایک مخروط تصور کرلیا جائے تو اس تصور کی بنیاد ہر کسی بھی معاشرے کا بغور جائزہ لینے سے مستقبل کی پیش گوئی ممکن ہے۔ مخروط یا کون کا نچلا حصہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور بالائی تکون بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ ہر معاشرے میں عام افراد کون کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور مفکر، علما، شعرا و ادباء اور فلسفیوں کا گروہ اس کا بلائی حصہ تشکیل دیتے ہیں۔ اس طرح معاشرہ کسی ایک عضو یا جسم یا فرد کی بجائے ایک خیال کے گرد گھومتا ہے۔ اور یہ بات انتہائی سادہ اور ابتدائی معاشروں سے لے کر آج تک ہر زمانے پر صادق آتی ہے۔ ابتدائی دور کے سفید ریش بزرگ اور وچ ڈاکٹرز کا گروہ ایسے ہی دانشور سمجھے جاسکتے ہیں جو اپنے معاشرے کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اور یہی آج کے دور میں ہے( یعنی فوکس گروپ، تحقیقاتی ادارے اور نظریاتی بنیاد وغیرہ)۔


لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ بنیادی طبقوں اور دانشوروں کے ان گروہوں کے درمیان کوئی آڑ یا بندش نہیں ہے۔ لوگ بنیادی درجے سے کون کے اوپری حصہ تک ترقی پا سکتے ہیں اسی طرح دانشور عوام میں گھل مل سکتے ہیں۔ اس طرح ہر نئے دور کا عوامی حصہ پچھلے دور کے دانشور حصے سے وجود میں آتا ہے ان سے آگے ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر دور کے مفکر خیالات کو درجہ بدرجہ ترقی دیتے ہیں یہی خیالات، سائنس اور معاشرے کی ترقی ہوتی ہے۔ اگر مخروط کی بالائی سطح پر خاطر خواہ دانشور موجود نہ ہوں تو معاشرے میں عام آدمی کی سوچ میں تبدیلی کا عمل بھی خاطر خواہ نہیں ہوتا اور وہ اپنے پرانے اعتقادات اور خیالات سے آگے نہیں بڑھتے جب تک رفتہ رفتہ نئے خیالات معاشرے میں پنپنا شروع ہو جائیں۔اس طرح کبھی کبھی تہذیبیں ماضی کے ادوار کے دانشوروں کے قلیل گروہوں کی تلقید میں بنتی نظر آتی ہیں۔


ہر دور میں مخروط کی انتہا پر ایسے نابغہ خیال موجود ہوتے ہیں جو حال کی دانشور کلاس سے اختلاف رکھتے ہیں، ان سے علیحدہ خیالات کے مالک ہوتے ہیں اور ان سے ہٹ کر سوچ سکتے ہیں۔ یہاں سے معاشروں میں کشمکش شروع ہوتی ہے۔ یہ لوگ گو بہت کم ہوتے ہیں لیکن ان کے خیالات اور نظریات میں تبدیلی کی خو ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کی نفوذ پذیری کی رفتار آہستہ ہو تی ہے لیکن بلاشبہ یہ مستقبل کی تہذیب یا معاشرے کے دانشوروں کا پہلا دستہ ہوتا ہے یہ مستقبل کی تاریخ کے لکھاری ہوتے ہیں جن کے ادراک اور تصورات پر مستقبل کا انسان پروان چڑھتا ہے۔
۔

۔ ” نگاہی بہ تاریخ فردا”۔ ڈاکٹر علی شریعتی سے ماخوذ و تلخیص شدہ 

when a blogger dies


When someone dies, a relation dies with it.. a mother dies with the mother, a father dies with the father, an uncle, a grandparent.. a sibling, their love and care die with that.. no one can replace that.. but other loves do spread out to fill the void, someone else puts a soft, caring arm around to make up for that… that is, if we get lucky. And sometimes, if we are not so lucky, we stay alone for long, waiting for that softness to return in our life in some form, getting it by and by or just getting over it.. that is life.. never stopping no matter how hard it hits someone.

But when a thinker dies, when a poet or writer dies… when a blogger dies, a thought process dies with it. A new idea of change remains unspoken. A unique world of beauty remains uncovered, yet another dimension of evolution remains silent. Yet another side of the story always remains untold. Yet another truth always stays hidden. A point of view that could be counted on, nulls down to nothing. And no matter how many more thinkers, poets, writers, and bloggers keep coming and filling the void, a thought always looms around.. that what life would have been like if they stayed with us some more… perhaps different in so many ways.

میکڈونلڈز والوں کی دوہری پالیسی؟؟


میکڈونلڈز والوں نے اپنی مارکیٹنگ اور فرینچایز پالیسی کے تحت پوری دنیا میں اپنا برانڈ متعارف کروایا ہے۔ امیریکہ میں اس کی ایک وجہ خوراک کی زیادہ مقدار میں ارزاں اور فوری فراہمی کے ساتھ ساتھ اس کی سروس، طویل شاہراہوں پر ریسٹ ایریا کی موجودگی اور بچوں کے لیے خصوصی آفر اور کھیلنے کی جگہ وغیرہ شامل کرنا ہے۔ خوراک کے ذائقے اور معیار کی یہاں بالکل بات نہیں ہورہی۔

 بہرحال اسکے بیان کردہ معیار کی ہر جگہ پر ایک سی فراہمی ہی سے اس کے نام کے ساتھ سروس کا ایک مخصوص تصور ذہن میں آتا ہے اور معمول سے ہٹ کر کچھ ہو تو بہت عجیب لگتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں سیر سے واپسی پر ایک جگہ ریسٹ ایریا میں رکنا ہوا۔ اس دن مقامی چھٹی نہیں تھی یعنی نارمل کاروباری دن تھا اس لیے وہاں رش نہیں تھا۔ باتھ روم کی صفائی دیکھ کر میکڈونلڈز کی دوہری پالیسی پر بہت ہی افسوس ہوا۔ آپ بھی دیکھیے۔





زیادہ تر چیزیں جیسے نلکا، ہاتھ سکھانے کا ڈرائر وغیرہ خودکار تھے جو بقول کسے “چائینہ سے دو پیسے کا موشن سنسر لگانے سے ہو جاتا ہے اگر کسی کو محنت کا شوق ہو”۔  
اصل افسوس مجھے ‘کمرے’ کے شروع پر لگے نوٹس کو دیکھ کر ہوا۔۔ میں نے اس کی فوٹو لی تو فرش صاف کرتی لڑکی نے لاتعلقی سے نظر اٹھا کر دیکھا۔ اور پھر کام شروع کردیا۔ 

دوہری پالیسی  یہ ہے کہ پاکستان کے میکڈونلڈ میں باتھ روم کے دروازے کے ہینڈل پر  ہاتھ رکھے ایک سخت گیر دربان ‘وردی’ پہن کر کھڑا تھا۔ جب میں نے چھوٹی کی طرف اشارہ کرکے کہا اس کو باتھ روم جانا ہے۔ اس نے دوسری طرف منہ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔”باجی ۔۔ پانی نہیں ہے۔۔اورجب میں اس کو قائل کرکے اندر پہنچی تو کچھ کچھ پانی تھا۔ لیکن اس کے علاوہ کیا کچھ تھا۔اس کو چھوڑیں !!۔