نہ کرنے کے سو بہانے

اکثر ہمارے کچھ بڑے بڑے خواب ہوتے ہیں ہیں۔ جیسے لوگوں میں شعور بڑھ جائے اور وہ انسانوں کی طرح رہنے لگیں۔ ۔ امن و سکون قائم ہو جائے۔ دنیا سے غربت۔ نسلی فسادات ۔احولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوجائے موسمیاتی تبدیلیوں عورتوں کے حقوق۔ باقی سب کے حقوق ۔۔ کو مناسب توجہ ملے وغیرہ۔

معذرت و معافی

ماضی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہماری غلطیوں کے لیے ہائی لائیٹر کا کام کرتا ہے۔ ہم جتنی بھی کوشش کرلیں۔ اپنی غلطی دل میں تو ہمیں ماننی ہی پڑتی ہے کیونکہ ہائی لائیٹ ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن ان غلطیوں کو ہم صرف آج کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں اور آج کے دیے ہوئے حالات میں خود کو قصوروار ٹہرا رہے ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جب ہم نے یہ عمل کیا تھا اس وقت ہمارے حالات کیا تھے ۔ کن مشکلات یا واقعات و ترجیحات کے تحت ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور تھے
Continue reading “معذرت و معافی”

بارشیں

بچپن میں مجھے بارشیں بہت اچھی لگتی تھیں۔ مجھے بارش میں نہانا بہت پسند تھا۔ اس کی ایک وجہ تو میرا بچپنا تھا۔ دوسرا تب سارے اکھٹے تھے تو ایک طرح سے جنگل میں منگل بھی ہوجاتا تھا۔ پھر شائد موسم کا بھی کچھ اثر تھا۔ سخت گرمی میں اچانک اٹھنے والی مٹی بھری ہوا کی مہک، پھر ہواکا ایکدم تیز ہوجانا اور گھنے بادلوں کا دن میں اندھیرا کرنا۔ جلتے ہوئے دن کا ایک پر فضا میں بدل جانا اچھا لگتا تھا۔ بارش سے چیزیں دھل جاتیں اور پودے زیادہ سبز لگنے شروع ہوجاتے۔ ماحول صاف ہوجاتا اور مجھے بارش کے رحمت ہونے احساس اندر تک چھو لیتا۔

Continue reading “بارشیں”

مجھے کچھ اور کہنا تھا

ایسا کئی مرتبہ ہوتا کہ ہم اپنے پروگرام کو کسی طرح ترتیب دیتے ہیں۔ ہمیں سب پتہ ہوتا ہے کہ ہم اس روز کیا کھائیں گے۔ اور کیا پہنیں گے اور کس سے ملیں گے اور کس سے کیا بات کریں گے۔ لیکن ہمارا دن کسی اور ڈھب سے چڑھتا ہے۔ ہماری ملاقاتیں ہمارے آرگنائزر کی تفصیل کے برعکس کچھ اور لوگوں سے ہو جاتی ہیں۔ ہم اپنی ترجیحات کی فہرست کے برعکس کچھ اور کام شروع کر دیتے ہیں۔ ہم اپنا پکا پکایا کھانا چھوڑ کر کوئی الگ شے کھانا شروع کردیتے ہیں۔ ہم اپنی سوچی سمجھی تحریر کی جگہ کچھ اور لکھنے لگتے ہیں۔ معلوم نہیں ہم کبھی کبھی اپنے سوچے سمجھے سیدھے صاف اور آسان سے پلان کی بجائے اپنی زندگی کو ایسے پیچیدہ کیوں کر لیتے ہیں۔

Continue reading “مجھے کچھ اور کہنا تھا”

شک کا فائدہ

ذاتی طور پر شکوک و شبہات کی حوصلہ افزائی کرنے کو ورک آف آرٹ سمجھنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ پھر میں کسی شرلاک ہومز کی طرح میں ایک عام سی بات کے نہ نظر آنے والے پہلوؤں کو سوچ کر اور اس میں بہت سی رنگ بازی ڈال کر اور واقعات کو مبالغے کی انتہا تک پہنچا کر میں ایک پوری فرضی کہانی ترتیب دے سکتی ہوں۔ ایک مصنف کے حساب سے یہ میرے فن کے اظہار کا نادر موقع بن سکتا ہے۔ ہے نا؟

Continue reading “شک کا فائدہ”

کچھ کہیے

کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں آج غالب غزل سرا نہ ہوا

ویسے تو ایک لکھاری لان میں پھرنے والے خرگوشوں اور چپ منک کی طرح خاموشی سے اپنی خفیہ حرکتوں میں مشغول رہتے ہیں اور ان کی کارروائی کا اس وقت تک علم نہیں ہوتا جب تک وہ راتوں رات آپ کے پودوں کو اچھی طرح اجاڑ نہ دیں۔ نہیں میرا مطلب ہے جب تک ان کی کوئی تحریر کسی اچھی سی شکل میں ٓاپ کےسامنے نہ آجائے ۔لیکن میں لکھاری کی بات نہیں کررہی جس کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہنا ہوتا ہے خواہ کوئی سنے یا نہ سنے۔

ایک چپ سو سکھ Continue reading “کچھ کہیے”

غالب اور اقبال

ایک مفكر درحقیقت فلسفہ اور زبان دونوں کے ذریعے خیال کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتا ہےزبان ہمارے لیے ان ایوانوں کی کنجیاں مہیا کرتی ہے جو ابھی ہم پر آشکار نہیں ہوئے۔ اور فلسفی خیال کے ان مقامات پر رکنے کے لیے مکان تعمیر کرتے ہیں جہاں ابھی آباد کارہی نہیں ہوئی۔

راہ زن، راہ براور راہ نمائی

ہم نے پہلے بھی بتایا تھا خانہ جنگی والا انقلاب ہمیں اچھا نہیں لگتا لیکن چیرمین کی سادگی سے دنیا کو ہمیشہ بہت امیدیں رہی ہیں۔ اور ہے بھی ایسا ہی۔ آدھی رات کو کوئی ایک ڈائری اٹھا کر اکیلا چلا آئے تو کسی بھی سادہ لوح کا دل دکھ جاتا ہے۔ پھر موسم، مسافت اور موسیقی کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ ہجوم کا ہیجان بتدریج زور پکڑتا ہے۔ پھر عقل والوں کو غیر محسوس طریقے سے پس منظر کر دیا جاتا ہے۔۔ پیش منظر میں کچھ اور چلا دیا جاتا ہے۔۔