”ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں”

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں

الوداع

 

 جوش ملیح آبادی

اے ملیح آباد کے رنگیں گلستاں الوداع

 

الوداع اے سر زمین صبح خنداں الوداع
الوداع اے کشور شیر و شبستاں الوداع

الوداع اے جلوہ گاہ حسن جاناں الوداع

تیرے گھر سے ایک زندہ لاش اٹھ جانے کو ہے
آ گلے مل لیں کہ آواز جرس آنے کو ہے
آ کلیجہ میں تجھے رکھ لوں مرے’قصر سحر
اس کتاب دل کے ہیں اوراق تیرے بام و در
جا رہا ہوں تجھ میں کیا کیا یادگاریں چھوڑ کر
آہ کتنے طور خوابیدہ ہیں تیرے بام پر

The Hobbit

“And suddenly first one and then another began to sing as they played, deep-throated singing of the dwarves in the deep places of their ancient homes; and this is like a fragment of their song, if it can be like their song without their music. […]

Continue reading “The Hobbit”

فیض

درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مو سے ٹپکنا چاہا

Continue reading “فیض”

ریختہ ۔۔ امیر خسرو

ریختہ ۔ امیر خسرو

Continue reading “ریختہ ۔۔ امیر خسرو”

تمہارے خط میں یہ نیا سلام ۔۔۔ !!!

؛ ڈ

آج بازار میں پابجولاں چلو



چشم نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں

تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو


دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو

خاک برسر چلو، خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو


حاکمِ شہر بھی، مجمعِ عام بھی

تیر الزام بھی، سنگِ دشنام بھی

صبح ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی


ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہر جاناں میں اب باصِفا کون ہے

دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے


رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

۔
فیض احمد فیض
لامور 

فروری۔۱۱۔۱۹۵۹

کچھ باتیں ان کہی رہنے دو

`

کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
کچھ باتیں ان سنی رہنے دو
سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر
پھر باقی رہ جائے گا
سب باتیں ان کی سن لیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا
اک اوجھل بے کلی رہنے دو
اک رنگیں ان بنی دنیا پر
اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو

منیر نیازی