مدار

اُس کا نام رباب ہے۔ میرے اپارٹمنٹ کی پہلی کھڑکی کے بالکل سامنے نظر آنے والی اس سلور کار میں بیٹھی وہ اپنے سیل سے میرے فون کو بار بار ری ڈائیل کررہی ہے۔ پانچویں منزل کے اس سٹوڈیو اپارٹمنٹ سے مجھے اسکے دبائے ھندسے نہیں دکھتے لیکن بیل وقفے وقفے سے مسلسل بج رہی ہے۔ اور پھر روز یہی ہوتا ہے ۔۔ یہی رباب کا آنا اور فون پر مجھے بیپ دینا۔۔

میں سر جھٹک کر اپنے کینوس کو دیکھتا ہوں۔۔ یہ میرا آج کا تیسرا کینوس ہے جس کو پرائم کرتے ہوئے میں خراب کر چکا ہوں۔ گیسو کو اوپر سے نیچے پھیرتے پھیرتے میں جانے کیوں درمیان ہی میں رک جاتا ہوں۔ اور یہ فون۔۔ دو انچ کے چوڑے برش سے گیسو لگانے کی خاص رفتار مجھے بار بار بھول رہی ہے۔ ۔ یہ پرایمر بہت تیزی سے خشک ہوجاتا ہے۔ ادھورے کوٹ پر ایک دوسرا ادھورا کوٹ اور خشک ہوا نائیلون برش۔ بار بار برش دھونے سے بہتر ہے میں اس مرتبہ بارہ نمبر کے پانچ چھ نئے برش لے آؤں۔

 

اپڈیٹ: 

یہ تحرير اور دوسرے افسانے پڑھنے کے لیے ذیل کی پوسٹ میں کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں ۔

_______________

پرانے افسانے

رافعہ خان

 

سب سے اچھا بچہ

جب میں رات میں سارے اچھے کام کر لیتااور بابا کے پاؤں دباتا۔ تو بابا مجھے اپنے ساتھ لٹا لیتے۔ بابا کی چارپائی بہت بڑی تھی۔ بڑے بڑے پایوں والی۔ سفید کھیسوں والی۔ جو شام سے پڑے پڑے بہت ٹھنڈے ہو جاتے تھے۔ رات کی رانی کی خوشبو رات بھرآتی رہتی۔ ستارے اپنی اپنی جگہ نکلتے اور چمکتے رہتے۔ اور چاند اگر جس روز میرے بستر کے دوسری طرف جانے میں دیر کرتا تو صبح سورج کو جلدی جلدی خداحافظ کہتا۔
 
جب میں سونے سے پہلے اپنی ساری کتابیں دل میں دھرا لیتا، اپنے کلمے اور پہاڑے۔ تو دنیا کو اچھا بنانے کے بہت سارے طریقے سوچتا۔ کبھی میں بابا سے پوچھتا ” بابا ۔اپنے قصبے جیسا اچھا؟“ اور بابا ہمیشہ کہتے۔ ”نہیں اس سے بھی اچھا۔“ لیکن مجھے تو اپنا قصبہ ہی سب سے اچھا لگتا تھا۔

اپڈیٹ: 

یہ تحرير اور دوسرے افسانے پڑھنے کے لیے ذیل کی پوسٹ میں کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں ۔

_______________

پرانے افسانے

رافعہ خان

 

ثانا بابا

سب سے زیادہ برے مجھے اپنی بائیں جانب رہنے والے لگتے ہیں۔ برسوں سے ہم لوگ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ لیکن نوازش فیملی کبھی بھی میرے رعب تلے نہیں آئی۔ اپنی کامیابیوں کا کتنا بھی ڈھنڈورا پیٹو، بچوں کی کارکردگی بڑھا چڑھا کر پیش کردو، اپنے کرسٹلز بطور خاص منگوا کر دکھا دو۔ مسز نوازش کی گھنی مسکراہٹ پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ ذرا جلن نہیں دکھاتیں۔ اور ویسی ہی ان کی دونوں بیٹیاں ہیں۔ ملنساری اور سلیقہ بھگارنے کو بس موقع چاہیے۔ اوپر سے ان کا بیٹا ۔ سارا وقت لان میں مختلف ورزشیں کرتا رہتا ہےلیکن گریڈز ایسے لاتا ہے جیسے کتاب ہر وقت ہاتھ میں رہتی ہو ۔دل خاک ہو جاتا ہے۔ کسی روز ایسی چوٹ لگنی ہے اس ٹارزن کو کہ جنگل میں منگل ہو جائے گا۔