چئیرمین پی ٹی آئی ایکسکلوسو پوڈکاسٹ

ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی۔۔ یہ امر بالمعروف کا بلا تکان تڑکا کیوں لگایا جا رہا ہے جبکہ تقاضا آپکا” نامنظور “  ہے۔ یاد ہے جب آپنے برٹش کیس کی مثال دی جہاں پارلیمنٹیرینز کو زیادہ جرمانہ ہوا تھا۔۔ اور جہاں سکینڈینیوین شہری سڑک پر آپکو کاغذ پھینکنے پر ٹوکتا ہے اور جہاں نیوٹرل کو حق اور باطل میں تفریق کی تلقین کرتے ہیں .. جہاں آپ لاکھوں کے مجمع سے اپنی ایک پکار پر لبیک کہتے ہوئے علمِ احتجاج بلند کر نے کی امید رکھتے ہیں ۔ کیونکہ آپ اپنی آخری سانس تک ان لوگوں کے خلاف لڑنے کا عہد کرچکے ہیں۔۔۔اسے برائی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا کہتے ہیں۔۔ ہاتھ سے اسے روکنا کہتے ہیں۔ امر بالمعروف نہیں کہتے۔۔۔   آپ صحیح الفاظ سے ناواقف یا خوفزدہ تو شائد نہیں ہیں۔۔ کیا آپ کنفیوز ہیں؟؟؟ 

سرجیکل سٹرائیک؟؟

#TO-RETALIATE-OR-NOT-TO-RETALIATE
#TO-BE…
#OR-NOT-TO-BE

الہ دین کے چراغ کا جن

واقعات اور حالات ہمیشہ ویسے نہیں رہتے جیسے ہم سوچتے ہیں کہ رہیں گے۔ جانی پہچانی کہانیاں بھی ایک مختلف رخ اختیار کر سکتی ہیں۔ دراصل کہانیوں کو مختلف رخ سے سوچنا بھی ایک لحاظ سے ہمیں ہر طرح کے حالات سے گزرنے میں مدد دیتا ہے۔ مثلا کیا ہو اگر الہ دین کی زندگی اتنی نہ ہو جتنی عموما ہوتی ہے جن ابھی ابھی چراغ سے باہر نکلا ہو اور کیا حکم ہے میرے آقا ہی کہ پایا ہو۔چراغ کہیں ادھر ادھر لڑھک گیا ہو۔

watching movie with a friend

 Did I miss something, Commander? I thought we just saved the dock.


Lock: That’s the problem with you people. You can’t think for five minutes in front of your face. That EMP knocked out almost every piece of hardware and every APU. If I were the machines, I would send every Sentinel I had here right now. Saved the dock, captain? You’ve just handed it to them on a silver platter.
تو تمہارا خیال ہے ہمیں مسٗلے میں دیکھ کر ماہرین اور مقتدر ادارے خود بخود چیزوں کو ہمارے لیے سہل کردیں گے

  Continue reading “watching movie with a friend”

شاعری ۔ آل احمد سرور

پار سال میں حسب معمول اپنی خیالی رزم گاہ میں نہ سمجھ آنے والے آسان سوال پر غور کر رہی تھی کہ حقیقت کے ادراک کے سفر میں بصیرت پہلا پڑاؤ ہے یا مسرت؟ یا دونوں بیک وقت اس ادراک کا حصہ ہیں؟ اس دوران گوگل سے سوال جواب کرتے کرتے میں آل احمد سرور کی اس کتاب تک پہنچی تھی۔ عنوان دیکھ کر مجھے جو مفہوم سمجھ آیا تھا کتاب اس بارے میں نہیں ہے۔ کتاب اصل میں اردو شاعری کا تنقیدی جائزہ ہے۔

Continue reading “شاعری ۔ آل احمد سرور”

ایزی مکس

وقت کم ہوتا ہے، کام زیادہ لگتا ہے۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کام کے بعد دوسرے کام بھی ہوتے ہیں، اسی لیے ایزی مکس کا رواج پڑجانے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔۔ یعنی کام کی آسانی میں اضافہ، صرف شدہ وقت میں کمی اور نتائج ویسے ہی شاندار۔۔ ہمم ۔۔ ایسے تو نہیں لگ رہا ہے میں کھیر مکس کے اشتہار کی پنچ لائن تیار کر رہی ہوں۔ اصل میں سائینس بہت ترقی کر گئی ہے، چیزوں اور رویوں کی تیاری میں وقت نہیں لگتا، ہر شے پہلے سے بنی بنائی اشیاء سے بہت آسانی سے تیار ہوجاتی ہے، اب وہ کھانا ہو، پارٹیز ہوں، قومیں ہوں، نطریے ہوں یا انقلاب۔۔ ایزی مکس میں ہر سوال کا جواب پوشیدہ ہے۔ 
 

آج کون سا دن، ہفتہ، مہینہ ہے

آج کل تو روز ہی کوئی نہ کوئی دن، ہفتہ یا مہینہ ہوتا ہے۔ کبھی خطرے سے دوچار کسی جانور کے بارے میں لوگوں کو مطلع کرنے کے لیے دن مقرر کرتے ہیں تو کبھی کسی بڑے مسئلے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے۔ یعنی بات اب مقامی مذہبی تہواروں اور سماجی میلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ ان دنوں کی اپنی ایک بین الاقوامی تہذیب، تاریخ اور زندگی ہے۔۔۔ اب اگر ہمارے پاس بہت سا بے کار وقت اور تھوڑا سا اضافی بجٹ ہو تو ہم روز دنیا میں کسی نہ کسی کو ایک عدد فری آن لائن گریٹینگ کارڈ ڈال سکتے ہیں، روز کسی نا کسی چیز کی یاد میں اینیورسری کیک کاٹ سکتے ہیں۔ روز نئے کپڑے پہن کر کام سے جان چھڑا کر باہرگھومنے جا سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ وقت اور پیسا طرح طرح سے انسانی خوشیوں کے آڑے آ جاتا ہے۔ دوسرا تاریخیں یاد رکھنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ گو مجھے یہ بھی امید ہے کہ بہت جلد آٹو پارٹی نام کی ایپلیکیشن ڈاونلوڈ ہو سکے گی۔ کسٹمائز کرتے وقت یاد سے کیک کے سیکشن میں ہوم کی بجائے سٹور کلک کیجیے گا۔ اور بل والے میں پے لیٹر۔۔ اور ہاں کچھ خاص خاص لوگوں کے لیے ویری لو(مینیمم) بجٹ والی۔

بات سے بات نیز ہمارے بلاگ کون پڑھتا ہے؟


میں کچھ بور سی ہو کر کہتی ہوں تم لوگوں کے امتحانات کی وجہ سے کتنا کچھ لکھا نہیں جا رہا۔ جس پر دانت پیس کر میری بچی کہتی ہے امتحانات ہی کی وجہ سے تو کتنا کچھ لکھا جا سکتا ہے۔۔ جس پر میں اعتراض کرتے ہوئے کہتی ہوں یہ صحیح نہیں ہے تم ماں باپ کی تمہارے امتحانات کی فکر کو موضوع نہیں بنا سکتی۔ جس پر وہ آنکھیں گھما کر کہتی ہے وہ ایک تحریر ہی تو ہوگی اس کو پرسنل کیوں لینا۔ جس میں یقینا میری تقریروں کا مضحکہ اڑانے کی کوشش ہے اور تحریروں کا بھی۔ کیونکہ کچھ ہی عرصہ پہلے میں نے وہ نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا ا چائلڈز پلے۔جس کو پڑھ کر میرے بچوں نے کہا یہ بالکل فیٗر نہیں ہے۔ جس پر میں نے کہا یہ شاعری ہے بھائی۔۔ اور شاعری اور ڈائری کو پرسنل نہیں لینا چاہیے۔۔ Continue reading “بات سے بات نیز ہمارے بلاگ کون پڑھتا ہے؟”