محبت


قدیم یونانی مفکروں نے محبت کو سمجھنے کے لیے چار حصوں میں بانٹ دیا تھا۔
Erosمحبت جو خواہش سے وابستہ ہے
Phileoدوستی کی محبت
Storage خاندان اور رشتہ داری کی محبت
agape خواہش سے عاری افلاطونی عشق ، دیوانگی
وقت اور حالات کے تحت اس ازلی جذبہ نےبہت سی ارتقائی شکلیں اختیار کیں۔ کہیں اسے عشق حقیقی اور مجازی کی تفریق دی گئی کہیں محض ہارمونز کا اتار چڑھاؤ کہ کر برطرف کر دیا گیا۔ کہیں کسی مصور کا فن پارہ بنا تو کہیں کسی شاعر کی نوا۔ لیکن اسرار خودی کی طرح محبت کے اسرار گہرائی میں جانے سے گہرے ہوتے جاتے ہیں۔

گو یہ ایک جذبہ ہے اور دوسرے جذبوں کی طرح اس کا بھی دورانیہ ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر خطہ میں محبت کے اس جذبے پر اتنی بحث ہو چکی، ہر ادب میں اس پر اتنا لکھا جا چکا کہ اسے سیدھے سبھاؤ بیان کرنا بذات خود ایک جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لیکن اتنا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی حقیقت جنس مخالف کی وقتی کشش سے کچھ زیادہ ہی ہے۔

بچپن میں مجھے محبت سے بہت محبت تھی۔ لگتا تھا دینا کی ہر شے ایک دوسری سے بندھی ہے اور یہ محبت کا شاخسانہ ہے۔ کشش ثقل زمیں کی اختیاری قوت ہے جو ہمیں خود میں سمائے ہوئے ہے۔ ستارے اور سیارے ایک دوسرے کے گرد ایک ازلی چاہ میں بندھے گھومتے ہیں۔ ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا خدا محبت میں لپٹ کر کریم تر ہے۔ بچے اور والدین، ہمسائے اور جانور، راہوں میں چلتے لوگ، ، دوسری قومیں، انجانے ملک۔ زمیں میں دبا لاوا۔ زندگی، موت اور موت کے بعد کی زندگی۔۔۔ محبت ہر روپ میں دلکش تھی اور میری ذات اس سب کا ایک حصہ۔ محبت میرے ارد گرد میلوں پر پھیلی تھی۔ اور قرنوں پر۔ محبت کا متضاد نفرت نہیں تھی۔ بس کم محبت تھی اور زیادہ محبت۔

جب بڑی ہوئی تو سب کی طرح مجھے ارد گرد کھنچی لکیریں نظر آنے لگیں جو تقسیم کرتی ہیں۔ بہت سی حدود۔۔ جو ہمیں بانٹ دیتی ہیں۔ سرحدی حدود، مذہبی، سماجی اور ذہنی حدود۔۔ قدیم، جامد اور بے لوچ۔ ایسی حدود جن میں ہم خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ جن کو ہم مقدس گردانتے ہیں۔ جن کو ہم پھاند نہیں سکتے۔ جن میں ہم بھٹک نہیں پاتے۔ جن میں ہم محصور ہو جاتے ہیں اور وہیں بس جاتے ہیں۔ اسی میں ہماری معاشرتی اکائیوں کی بقا کا تصور بنایا گیا ہے۔ سوال اٹھا: کیا محبت ایک غیرضروری، بری شے ہے؟ جواب ملا۔ محبت کی تشریح پر منحصر ہے۔ یہ درد دل یا لب پہ آتی کوئی دعا ہو تو صدقہ جاریہ ہے اور اگر ایکسٹرا میریٹل ہو تو عزت سادات تو جائے گی، سر بھی نہیں بچے گا۔

زندگی کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ محبت سوز دل ہے جو جلاتی نہیں، جلا دیتی ہے۔ شکستگی کی یہ تابداری پھر جو بھی روپ دھارتی ہے وہ وقت کی دھند سے آگے نکل جاتا ہے، اپنے نشان پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ انسانوں میں محسنین کی ریت ڈالتا ہے۔ مگر اس کی بہت صورتیں اور رنگ ہیں۔ اتنے کہ گننا چاہو تو نہ گن سکو۔ شائد یہ اس جذبے کی ہمہ گیری اور خوبصورتی ہی ہے جو اسے آفاقی سمجھا جاتا ہے۔ محبت کے موضوع پر لکھتے ہوئے اقتباسات کی کوئی کمی درپیش نہیں ہوتی کہ ہر شخص اس پر کچھ نہ کچھ کہ چکا ہے لیکن نوک قلم پہ کچھ سطور ہیں

۔(محبت) ۔۔ آب جو ہے
جو دلوں کے درمیان بہتی ہے
خوشبو ہے
کبھی پلکوں پہ لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اتر جائے
تو منظر اور پس منظر میں شمعیں جلنے لگتی ہیں
کسی بھی رنگ کو چھو لے
وہی دل کو گوارا ہے
کسی مٹی میں گھل جائے
وہی مٹی ستارہ ہے

محبت جوڑتی ہے۔ انسان کو انسان سے، زمین کو باسیوں سے، بندے کو رب سے، پودے کو مٹی سے، پرندوں کو ڈار سے۔ تو یہ ایک ناطہ ہے، ایک تعلق ہے جو کسی مابعد طبیعاتی فلسفے میں، کسی سائنس میں، کسی ادبی تحریر میں مکمل نہیں بیان ہو پاتا لیکن کسی ایک لمحے میں جیسے اس کا پورا ادراک سما جاتا ہے۔ پھر باقی تفصیلات اضافی ہو جاتی ہیں۔

مشاہدہ یہ کہتا ہے، اپنی آفاقیت سے قطع نظر محبت وہ واحد شے نہیں ہے جو کائینات کے ارتقاء، ترقی اور تبدیلی کی ضامن ہے۔ کیونکہ فطرت کا تسلسل اور وجود اور توازن متضادات کے اصول پر کاربند ہے۔ مرکزمائل اور مرکزگریز قوتیں باہم مل کر چیزوں کو ایک مرکب صورت دیتی ہیں۔ تو محبت کا متضاد کیا ہے۔ نفرت؟؟ نہیں نفرت اصل میں اس مرکز گریز قوت کا حاصل نفع ہے۔ محبت پھیل کر چیزوں کو گھیراؤ میں لے لیتی ہے تو کوئی ایسی شے جو پھیلاؤ نہ ہونے دے۔ جو بند کردے۔ جو بڑھنے نہ دے۔ جوحد بن جائے وہی محبت کا متضاد ہے۔

مجھے لگتا ہے ‘میں’ وہ شے ہے جو میں اور تو کا فرق مٹانے نہیں دیتی۔ ‘میں’ وہ شے ہے جو محبت کو حد سے آگے جانے نہیں دیتی۔ جو راستہ روک دیتی ہے۔ کہکشاؤں کو ایک دوسرے میں گرنے نہیں دیتی۔ ستاروں کو رستہ بھتکنے نہیں دیتی۔ سمندر کو بے کنار ہونے سے روکتی ہے۔ فرد کو ملت میں مدغم نہیں ہونے دیتی۔ میں ذات کو مستحکم کرتی ہے۔ ذات کی یہ بندش ایک طرف ارتقاء کو مکمل کرنے میں محبت کا ساتھ دیتی ہے۔ تو دوسری جانب فرد کو تنہائی اور اکیلے پن کا تحفہ دیتی ہے۔

محبت کو سمجھنے کے لیے ہم اکثر داستانوں اور استعاروں کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن اس کے متضاد کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ بھی ہے یہ محبت نہیں ہے۔ تو محبت اپنے مرکزگریز کے مساوی ہونے کے باوجود زیادہ اہمیت و حیثیت کی حامل ہے۔ بنیادی حوالہ ہے۔ سوال اٹھے گا، ہم محبت کے اس ایک جذبے کو باقی بنیادی جذبوں بھوک، خوف، درد وغیرہ سے زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں۔ اس پر اتنی بحث کیوں کرتے ہیں۔ اس کو اتنا اختیار دے کر خود بے اختیار کیوں بن جاتے ہیں۔ اس پر فخر کیوں کرتے ہیں۔

شائد اس لیے کہ یہ جذبہ ہمیں جھوٹی، سچی امیدوں سے گزار کرمحرک رکھتا ہے۔ شائد اس لیے کہ باقی جذبوں سے کہیں زیادہ اس کا تعلق خوشی سے ہے، جو محبت کے ہونے کے خیال سے ہی ہمارا اندر اور باہر روشن کر دیتی ہے۔ یہی جذبہ سب سے زیادہ ہم مالک سے شئیر کرتے ہیں۔ اس نے ہی تو بتایا کہ خوب جان لو ۔۔۔۔ پھر ایسوں سے میں محبت نہیں کرتا۔۔۔ اب اور کیا کہیں کہ ادا کیا ہے۔ یہاں پیازی اشکوں والے رقیب اور عشق ازل گیر کے مقابلے کا کوئی مقام نہیں لیکن حقیقت ہے کہ خوشی صرف ہمیں نہیں ملتی، اپنی تمام تر بےنیازی کے باوجود کسی کے اس کی طرف لوٹ آنے پر مالک بھی خوش ہوتا ہے۔ توبے اختیاری سرشت میں ڈل چکی ہے اس سے لڑنا ناممکن ہے۔ خوشی اور محبت کا بندھن بہت اٹوٹ ہے۔ درد بعد میں آتا ہے۔ جب مرکز مائل کا مرکز گریز سے ٹکراؤ شروع ہوتا ہے۔ یہاں حسن توازن بگڑتا ہے۔

جی ہاں، محبت کا توازن بگڑے تو اس کی شکل بھی بگڑ جاتی ہے۔ محبت اپنی پہلی انتہا میں سپردگی اور قبولیت ہے۔ اور دوسری انتہا میں غلبہ اور تسلط ۔ ۔ کبھی کبھی یہیں پر اجتماعی ارتقاء بے معنی ہوجاتا ہے۔ اور کبھی کبھی ان دونوں انتہاؤں میں کچھ خاص فرق نہیں رہتا۔ کیا، کیوں اورکیسے کے سوالات ختم ہو جاتے ہیں۔ دشت اور استخوان سے آپ سوال کریں گے بھی کیا۔ سو محبت میں کچھ شرطوں اور توازن کی جگہ ضرور رکھنی چاہیے۔ ارے۔۔ بھول گئے دل کےساتھ ساتھ پاسبان عقل بھی توہے توشہ خاص میں ۔۔

میں اور اب نہیں جیوں گی

نئے آسماں کے نیچے
نئی زمیں پر
نئے خواب نہیں بنوں گی
نئے موسم نہیں گنوں گی

مکمل نظم کے لیے کتاب دیکھیں 

دریچوں میں جگنو

رافعہ خان

سب سے اچھا بچہ

جب میں رات میں سارے اچھے کام کر لیتااور بابا کے پاؤں دباتا۔ تو بابا مجھے اپنے ساتھ لٹا لیتے۔ بابا کی چارپائی بہت بڑی تھی۔ بڑے بڑے پایوں والی۔ سفید کھیسوں والی۔ جو شام سے پڑے پڑے بہت ٹھنڈے ہو جاتے تھے۔ رات کی رانی کی خوشبو رات بھرآتی رہتی۔ ستارے اپنی اپنی جگہ نکلتے اور چمکتے رہتے۔ اور چاند اگر جس روز میرے بستر کے دوسری طرف جانے میں دیر کرتا تو صبح سورج کو جلدی جلدی خداحافظ کہتا۔
 
جب میں سونے سے پہلے اپنی ساری کتابیں دل میں دھرا لیتا، اپنے کلمے اور پہاڑے۔ تو دنیا کو اچھا بنانے کے بہت سارے طریقے سوچتا۔ کبھی میں بابا سے پوچھتا ” بابا ۔اپنے قصبے جیسا اچھا؟“ اور بابا ہمیشہ کہتے۔ ”نہیں اس سے بھی اچھا۔“ لیکن مجھے تو اپنا قصبہ ہی سب سے اچھا لگتا تھا۔

اپڈیٹ: 

یہ تحرير اور دوسرے افسانے پڑھنے کے لیے ذیل کی پوسٹ میں کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں ۔

_______________

پرانے افسانے

رافعہ خان

 

ثانا بابا

سب سے زیادہ برے مجھے اپنی بائیں جانب رہنے والے لگتے ہیں۔ برسوں سے ہم لوگ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ لیکن نوازش فیملی کبھی بھی میرے رعب تلے نہیں آئی۔ اپنی کامیابیوں کا کتنا بھی ڈھنڈورا پیٹو، بچوں کی کارکردگی بڑھا چڑھا کر پیش کردو، اپنے کرسٹلز بطور خاص منگوا کر دکھا دو۔ مسز نوازش کی گھنی مسکراہٹ پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ ذرا جلن نہیں دکھاتیں۔ اور ویسی ہی ان کی دونوں بیٹیاں ہیں۔ ملنساری اور سلیقہ بھگارنے کو بس موقع چاہیے۔ اوپر سے ان کا بیٹا ۔ سارا وقت لان میں مختلف ورزشیں کرتا رہتا ہےلیکن گریڈز ایسے لاتا ہے جیسے کتاب ہر وقت ہاتھ میں رہتی ہو ۔دل خاک ہو جاتا ہے۔ کسی روز ایسی چوٹ لگنی ہے اس ٹارزن کو کہ جنگل میں منگل ہو جائے گا۔

 

سچ ادھورا ہے ابھی۔ انتساب

 لفظ کاش کے نام

جس کا سہ حرفی وجود
محبت سے نفرت تک
آرزو سے حسرت تک
سب ریاضتوں کا عنوان رہا ہے
کلمہء افسوس ہے مگر
حرف دعا بھی ہے۔
 
__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان

ناپرساں

 

اس بولتے شہر میں میرا غم کون کب سنے

میرے شہر کے سارے لوگ، 

خود اپنے ارادوں کی نا قدری کی داستانیں بیان کرتے 

اس زمانے کی آگہی کے جرم سناتے

لوگوں کی جہالت کے غم مناتے ، بولتے مسکراتے جا رہے ہیں

سبھی کو اپنا غم سنانا ہے ابھی

راستوں میں ٹھوکریں کھاتے قدموں کے زخموں کے قصے

حکایت زندگی رقم کرتے خونچکاں ہاتھوں کی داستانیں

میرا غم کون کب سنے؟؟

 
__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان