میں ایک جھوٹ جیتی ہوں

میں ہوا کے کان میں اپنے خواب کہتی ہوں
ریت پر تصویریں نقش کرتی ہوں
پانی کے ورق پر اپنے راز لکھتی ہوں۔
میں تم سے کچھ نہیں کہتی
تم کب اس کو سمجھو گے ۔۔

مکمل نظم کے لیے کتاب دیکھیں 

دریچوں میں جگنو

رافعہ خان

دیوان حافظ، فالنامہ اور ایٹ بال

“اور آپکا پسندیدہ رنگ”

“اور آپ کا پسندیدہ نمبر۔۔”
“اور آپ کا سوال۔۔”
“کیا ہم ویک اینڈ پر زو جائیں گے؟”
“کیا میرا دوست آج کھیلنے آئے گا؟”
“کیا ماما کیک بنائیں گی؟”
“کیا میرا ٹیسٹ اچھا ہوگا؟”
“کیا آج بارش ہوگی؟”ساری صبح لگا کر بنائے گئے کاغذ کے فورچون ٹیلر سے وہ ہاں/ ناں والے سوالات پوچھ پوچھ کر ہلکان ہو رہے تھے۔


لیکن بچوں کو ہر طرح کی علتوں سے دور رکھنا، ان کو ہر وقت صحیح غلط کی تمیز دیتے رہنا اور اصلاح کرنے کا کوئی موقع نہ جانے دینا اکثر والدین کی طرح میرا بھی پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس وجہ سے میں نے آج تک انہیں ایٹ بال نہیں لے کر دی۔ لیکن انہوں نے دوسرا رستہ نکال لیا ہے۔ میں نے موقع دیکھ کر دوبارہ شروع ہونے کی کوشش کردی

اس کاغذ پر یہ جوابات آپ نے خود لکھے ہیں۔ اس میں کوئی سائینس ملوث نہیں کیک کا آپ مجھ سے براہ راست پوچھ سکتے ہو اور بارش کا موسم کے حالات میں معلوم ہو جائے گا۔ اسی طرح۔۔”

“ہم صرف تھوڑے سے فن کے لیے کر رہے ہیں ماما۔۔”
انہوں نے مدافعاتی بیزاری سے احتجاج کیا اور سوال پوچھنے والی چہک سرگوشیوں میں ڈھل گئی۔ مجھے ہنسی آ گئی اور میں بظاہر وہاں سے ہٹ گئی۔ مجھے ہلکے کیسری رنگ کا دیوان حافظ مترجم یاد آگیا تھا۔بچپن میں ہمارے گھر میں متنوع موضوعات پر اردو کی کتابوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ ان دنوں جب اشتیاق احمد کی قوت تحریر ہماری رفتار مطالعہ سے بہت کم تھی، نئے درجوں کی کورس کی ساری کتابوں کی ساری کہانیاں ہفتہ بھر میں ختم ہو جاتی تھیں، ہمیں درجہ بدرجہ الماریوں میں چنی ان کتابوں میں جھانکنے اور کتابیں چھانٹنے کا اتفاق اکثر ہوتا تھا۔

کتابوں کی درجہ بندی کے حقیقی اصولوں سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے دماغوں نے اپنے گمان، خیال اور بڑوں کے مبہم رویوں سے خود سے ایک درجہ بندی کی ہوئی تھی سو عرصہ تک ہم سبھی سمجھتے تھے کہ سب سے اوپر قران پاک کے ساتھ چمکیلی جلدوں والی سبھی کتابوں کو باوضو پڑھا جاتا ہے۔ ان دنوں ہم الرحیق المختوم کے ساتھ رکھا بہشتی زیور بھی صرف رمضان میں ہی مطالعہ کرتے۔

اگلے خانے میں آنے والی کتابیں بھی کچھ تنبیہی نگاہوں کے باعث ان دواؤں کی طرح لگا کرتیں جن پر بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی خاص احتیاط درج ہوتی ہے۔ سو اکثرگرمیوں کی خاموش دوپہروں میں کرسی رکھ کر ہم بھی خاص احتیاط سے کچھ بھی ہلائے جلائے بغیر ان کو اتارتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے کہ کس چیز کو ہماری پہنچ سے دور رکھا جا رہا ہے۔

خیر ان اوپری خانوں میں محفوظ کتابوں کی حقیقی تفصیل اور احوال دگر کبھی آغا کی زبانی سنیے گا۔ مجھے تو فقط یہ یاد ہے کہ اس وقت یہی گتھی حل نہ ہوتی تھی کہ نقش چغتائی، دیوان حافظ، میری لائبیریری کے چھپے ان عالمی شہ پاروں کے تراجم یا میراجی سے مفتی تک کی ایسی ہی دوسری کتابوں میں ایسا کیا تھا جسے ہماری پہنچ سے دور رکھا جانا چاہیے تھا۔ کیونکہ نچلے خانوں میں تاریخی ناولوں اور ڈایجسٹوں میں بہت سلیس الفاظ میں وہی تحریریں اور وہم قبا میں ملبوس وہی تصویریں ہماری دسترس سے قریب تر، قطار در قطار پڑی تھیں۔ شائد بڑوں کے ذہنوں میں ان کتابوں کی چھپائی میں سیاہی کی شدت ان کی خود حفاظتی کی دلیل تھی۔ جو ایک حد تک سچ بھی ہے۔۔ مگر کیا کیا جائے کہ کتاب کا فاقہ بری شے ہے۔۔

سو ایسے ہی ایک دن ہم نے دیوان حافظ دریافت کیا۔ جس کی ابتدا میں حافظ خوانی اور اردو مقدمہ میں تفصیل سے فال نکالنے اور اس کے مصدقہ ہونے وغیرہ وغیرہ کے بارے میں حافظ پر حلف اٹھائے ہوئے تھے۔ گرمیوں کی گرم دوپہروں میں ہم لوگ گھٹنے موڑے، سر جوڑے ایسے ہی آہستہ آہستہ سوالات کرکے حافظ کو شائد ہلکان کر دیا کرتے۔ شروع میں ہم سوالات باآواز بلند کرتے تھے اورایک ساتھ آنکھیں میچ لیتے تاکہ فال کو زیادہ سے زیادہ خالص کیا جا سکے۔

بعد میں سوالات میں ایک پرائیویسی آتی گئی اور ہم ذہن میں جو سوچتے اس کا جواب چاہتے اور باقیوں کو کچھ اور ہی بتاتے۔ اور حاضرین آنکھیں کھلی رکھتے مبادا فال میں کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ وہ بچپن کے دن تھے۔ ہر سوال کا جواب عموما صحیح ہوتا۔ اور مقدمہ میں تنبیہہ بھی تو تھی کہ فال بالکل سچ بتاتی ہے۔ اگر کوئی کسر ہے تو ہمارے یقین میں۔ اور یقین میں ہم نے کبھی کمی نہیں رکھی۔

داہنی سمت کے صفحے کا پہلا شعر سوچ کر جب بھی میں نے کلام حافظ کھولا ایک ہی شعر نکلا اور بلاشبہ زندگی کے تمام مسائل کا حل اسی شعر سے ہو جاتا تھا۔۔۔ شعر مجھے یاد نہیں ترجمہ کچھ ایسے تھا کہ صبح دم جب نسیم صبح جنت کی جانب سے آتی ہے تو خوشبوئے دوست لاتی ہے۔ وغیرہ۔۔ معلوم نہیں اس کو میں نے ہر مسئلے پر کیسے فٹ کیا۔ لیکن بہت بعد میں مجھ پر کھلا کیہ کثرت فال سے چند صفحات ڈھیلے ہوچکے تھے اور بار بار مخصوص مقامات سے کھل کھل جاتے ۔۔

بہرحال میری ناسمجھی کے وہ دن گزر گئے ہیں۔ اور اردو میں لکھی کتابیں ہندسوں اور علامات میں لکھی کتابوں سے بہت دور رہ گئی ہیں۔ اب جو کتابیں درجہ بدرجہ میری الماریوں میں چنی ہیں ان کو میں نے کبھی نہیں پڑھا۔ مسلسل دیکھنے سے مجھے ان کے نام زبانی یاد ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی۔۔ پائیتھون، سیکیورٹی اسینشلز، راوٹنگ اینڈ سویچنگ۔۔ ان کو کبھی کھولو تو ان میں لفظ کم اور ھندسے زیادہ ہوتے ہیں۔ میپنگ ٹیبلز اور آئی پی ماسکنگ۔۔ سب نیٹس ڈیزائن اور لیرز اف کمیونیکیشن۔۔ کیا میں کچھ سینس بنا رہی ہوں۔۔ شائد نہیں۔ یہ میری ناسمجھی کے نئے دن ہیں۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے حافظ کے فالنامے کو ایٹ بال سکرپٹ پر منطبق کرنے کی کوشش کی آپ بھی دیکھیں اور لطف اٹھائیں۔

اپنا سوال لکھیے: ۔   (یاد رہے کلام حافظ کچھ ستم ظریف واقع ہوا ہے۔)


جواب:۔

 

  اگر مزہ نہیں آیا تو یہاں پر روایتی ایٹ۔بال انداز میں کوشش کریں۔

سوال:۔


جواب:۔


اس سکرپٹ کا انتخاب صرف تفریح کی خاطر کیا گیا ہے اور تبدیلی میں کسی قسم کے سنجیدہ مقاصد کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔

کمیونیکیشن گیپ

ویسے تو جس ساحلی علاقے میں میں مقیم ہوں درختوں کی کثرت کی وجہ سے حبس زدہ گرم دنوں میں یہ عام سی بات ہے۔۔ سانس کا لمحے دو لمحے کے لیے رک جانا۔ لیکن بات وہ نہیں ہے ۔۔ گرم دن ابھی شروع نہیں ہوئے۔ بات اصل میں کیا ہے مجھے سمجھ نہیں آیا۔
 
آج میرے بیٹے کو گولڈ میڈل ملنا تھا۔ یہاں جس جگہ میں رہتی ہوں ہر موقع کو ایک بڑا موقع بنا لیتے ہیں۔ خود ہی سٹیج سجاتے ہیں، ایک دوسرے کی مدد سے انعامات اکھٹے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو بانٹ دیتے ہیں۔ اس سب کو وہ حوصلہ افزائی کہتے ہیں۔۔ کردار سازی کا کام۔
 
بس ایسی ہی کچھ زندگی ہے یہاں کی۔ ایک بات کی پڑتال کی۔ نتائج اخذ کیے پھر اپنی زندگیوں کو اس کے گرد بن لیا۔ اگر نتائج غلط ثابت ہوں تو اسے پیچھے چھوڑ کر کسی نئے مرکزی خیال کو جینا شروع کر دیا۔ ایسے میں کبھی پلٹ کر وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔ اس کو وہ زندگی کے تجربے کا نام دیتے ہیں۔

اپڈیٹ: 

یہ تحرير اور دوسرے افسانے پڑھنے کے لیے ذیل کی پوسٹ میں کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں ۔

_______________

پرانے افسانے

رافعہ خان

 

مدار

اُس کا نام رباب ہے۔ میرے اپارٹمنٹ کی پہلی کھڑکی کے بالکل سامنے نظر آنے والی اس سلور کار میں بیٹھی وہ اپنے سیل سے میرے فون کو بار بار ری ڈائیل کررہی ہے۔ پانچویں منزل کے اس سٹوڈیو اپارٹمنٹ سے مجھے اسکے دبائے ھندسے نہیں دکھتے لیکن بیل وقفے وقفے سے مسلسل بج رہی ہے۔ اور پھر روز یہی ہوتا ہے ۔۔ یہی رباب کا آنا اور فون پر مجھے بیپ دینا۔۔

میں سر جھٹک کر اپنے کینوس کو دیکھتا ہوں۔۔ یہ میرا آج کا تیسرا کینوس ہے جس کو پرائم کرتے ہوئے میں خراب کر چکا ہوں۔ گیسو کو اوپر سے نیچے پھیرتے پھیرتے میں جانے کیوں درمیان ہی میں رک جاتا ہوں۔ اور یہ فون۔۔ دو انچ کے چوڑے برش سے گیسو لگانے کی خاص رفتار مجھے بار بار بھول رہی ہے۔ ۔ یہ پرایمر بہت تیزی سے خشک ہوجاتا ہے۔ ادھورے کوٹ پر ایک دوسرا ادھورا کوٹ اور خشک ہوا نائیلون برش۔ بار بار برش دھونے سے بہتر ہے میں اس مرتبہ بارہ نمبر کے پانچ چھ نئے برش لے آؤں۔

 

اپڈیٹ: 

یہ تحرير اور دوسرے افسانے پڑھنے کے لیے ذیل کی پوسٹ میں کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں ۔

_______________

پرانے افسانے

رافعہ خان

 

شطرنج اور ایک صورت خرابی کی

چھوٹی کا تتلاتا لہجہ صاف ہوتا جا رہا ہے۔ قد نکالنے کے ساتھ ساتھ اس کی انا بھی سر اٹھا رہی ہے سو ہار ماننا اب اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اسے معلوم ہے سب اس سے زیادہ جانتے ہیں لیکن اس کا سب سے آسان حل تو یہی ہے کہ نہ اپنی کم علمی کا اعتراف کیا جائے اور نہ ہی کسی اور کو جیتنے دیا جائے۔ سو پچھلی شب بہنا اور بھائی کو شطرنج کھیلتا دیکھ کر بہت شدت سے اپنے نظر انداز ہونے کا غم ہوا۔ جس کو غلط کرنے کے لیے مجھے بیچ میں دخل دینا پڑا۔ تو بھائی نے جب پڑھنے کے لیے چھوٹی سی بریک لی تو شطرنج کا بورڈ، بہنا دونوں ان کے رحم و کرم پر آگئے۔ 

 

اب جو نئی گیم انہوں نے بنائی ہے اگر میں ان کی ہم سنی کا شرف رکھتی تو ضرور پیٹنٹ کے لیے اپلائی کر دیتی۔ 
تو کون جیتا آخری گیم میں، میں نے رات کے کھانے پر موضوع نکالا۔ 
جیتا۔۔!! بہنا کی بڑبڑاہٹ۔ ہم نے ہار جیت کے بغیر کھیلا ہے۔۔

ہاں ماما۔ اس میں کوئی نہیں جیتتا۔۔ چھوٹی بولی
پھر کیسے کھیلتے ہیں اسکو
تو مہروں کی تفصیل کچھ ان کی زبانی:
بادشاہ اور وزیر جو ہیں وہ ماں باپ ہیں۔
(انہیں تو اس نے بورڈ پر بھی نہیں رکھنے دیا۔۔ احتجاجی صدا۔ میرا اشارہ۔ خاموش۔۔ سننے دو بھئی)
ہاں ماں باپ وہ باہر کھڑے دیکھ رہے ہیں
اچھا پھر کیا ہوتا ہے۔
کچھ نہیں۔ بس سارے پیادے لڑکیاں ہیں۔ (ہمم) انکے لمبے ڈریسز(ہممم) تو وہ بیلے ڈانس کرتی ہیں فلور پر
سارے دوسرے مہرے لڑکے ہیں(ہاہا) وہ ڈانس نہیں کرتے۔
تو کیا کرتے ہیں
وہ فٹبال کھیلتے ہیں۔

گیم ختم کیسے ہوتی ہے۔
جب لڑکیاں ڈانس کرکے تھک جائیں گی۔ لڑکے فٹبال کھیلتے کھیلتے بورڈ کی دوسری سمت چلے جائیں گے۔ ان کے ماں باپ انکو بلا لیں گے تو ۔۔۔
(یا اگر قسمت اچھی ہو تو کھانے کا وقت ہو جائے گا۔۔۔ احتجاجی صدا)

گیم کے اصول تو جلد یا بدیر اسکو ازبر ہو جائیں گے لیکن پرانے کھیل کا نیا پن روز روز کہاں ملے گا۔

چودھویں کا چاند

کل شام کو جب سب نکلے تو میرا دماغ حسب عادت سب کچھ ساتھ ہی اٹھا لایا۔ وہی رات کے کھانے کا مینو، پڑوسن سے کرنے والی گفتگو، سالانہ امتحانات کی ورک شیٹس کی فکر، سیلوں کی تاریخیں، چھٹیوں کا نقشہ۔۔۔ گاڑی کے باہر کے مناظر سے بے نیاز اور گاڑی کے اندر ( اپنے اور دوست کے) بچوں کے مناظر سے بےزار میں کچھ غیر حاضر سی تھی جب چھوٹی کی بڑی سی آواز نے مجھے چونکا دیا۔۔ ماما ۔۔ ۔کتنا بڑا چاند۔۔۔

 شام پانچ بجے مجھے چاند کے بھدے پھیکے پن کے علاوہ کسی چیز کی توقع نہیں تھی۔ سو حسب عادت دیکھے بغیر ہی واہ واہ کا نعرہ بلند کر دیا۔ پھر واہ واہ کی بازگشت دو ایک مرتبہ اور بلند ہوئی تو میں نے سرسری نظر داہنی طرف ماری۔ چاند واقعی بڑا اور ضرورت سے زیادہ اجلا تھا۔


سورج غروب ہونے سے بھی پہلے ایسا چاند۔۔ میں تھوڑی حیران تھی
چاند بہت قریب ہے۔ اور تمہیں حیرانی ہوگی کہ کل سال کا سب سے بڑا پورا چاند ہے۔ احسن ہمیشہ کی طرح حیرانی کو ایک درجہ آگے لے گئے۔
کیا واقعی۔ اب میں نے ذرا غور کیا۔ اور بہت دنوں بعد اس کی خوبصورتی کو ٓنکھ بھر کر دیکھا۔ بلکہ باقی رستہ میں نے چاند ہی کو کھوجتے گزارا۔

گھر آ کر ویب پر چیک کیا تو معلوم ہوا یہ واقعی سال کا بلکہ دس سال کا سب سے بڑا پورا چاند ہے جو آج تین سے چھے پاکستانی رات تین ۔۔ نارتھ امیریکہ میں دیکھائی دے گا۔ جب چاند اپنے مدار میں زمین کے قریب ترین ہوتا ہے تو اپنے معمول کی جسامت سے کچھ دس فیصد زیادہ بڑا دکھتا ہے جسے ہم عمومی آنکھ سے اکثر نہیں دیکھ پاتے۔

ویسے تو چاند کو دیکھنے کی بھی ایک لگن اور عمر ہوتی ہے۔ لیکن کیا واقعی زندگی گزارتے گزارتے ہم ان چھوٹی چھوٹی خوبصورتیوں کو یونہی بےکار سمجھ کر نظر انداز کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ بچوں کا ساتھ مجھے مالک کی طرف سے دنیا دیکھنے کا ایک چھوٹا سا ریفریشر کورس لگتا ہے جس میں ہماری آنکھ اور دل تازہ دم ہو کر نئے سرے سے محسوس کرنا شروع کرتے ہیں۔