Month: November 2011
کوہان تو ہوگا۔۔۔
بچے جرابوں کے بل پر ادھر سے ادھر پھسل رہے ہیں۔ اوپر نیچے دوڑ رہے ہیں۔ میں نے چند لمحے پہلے تشدد کی زیادتی کا بہانہ بنا کر سٹاروارز بند کردی تھی جس نے مختلف عمروں کے بچوں کو ایک ہی کمرے میں باندھا ہوا تھا۔ شور سے گھبرا کر میں نے دوبارہ ٹی وی آن کرکے کارٹون چینل میں ٹام اینڈ جیری لگا دیا۔ صرف کردار بدلے ہیں۔
چائے کی خوشبو اچھی لگ رہی ہے۔ لیکن یہ لپٹن نہیں ہے۔ میں دو کوس دور جا کر دو پیسے زیادہ دے کر پاکستانی یا مسلمان دکان سے سودا لانے کی کوشش کرتی ہوں لیکن وہ دو پیسے کبھی پاکستانی یا مسلمان کا نفع نہیں بنتے۔ میرے جانے پہچانے برانڈ وہاں ہوتے ہی نہیں۔ “ان کی مارکیٹ نہیں ہے۔۔” اکثر معلوم ہوتا ہے۔ “لیکن یہ برانڈ۔۔ “میں حلیم کے لیے دال ہاتھ میں لے کر بحث کرنے کا وقت نہ ہوتے ہوئے بھی سوال کر گئی تھی۔۔ “ارے بھئی دال تو دال ہے ، برانڈ جو بھی ہو۔” وہ کافی سیانی دوکاندار ہیں ۔۔ یہی دلیل انہوں نے پچھلی بار اردو کے مختلف نام کے بھی دی تھی۔۔”اردو تو اردو ہی رہے گی خواہ کوئی اسے ریختہ کہے یا ہندی۔۔” میں نظر چرا گئی تھی۔۔
سوال اب عمرانی یا سماجی نہیں رہا۔۔ اس محاذ پر فتح کا جھنڈا لہرائے تو کم و بیش تین عشرے بیت چکے ہیں۔ سوال اب خالص معاشیات کا ہے۔ سوال غربت کی اس انتہائی لکیر کا ہے جو ہمارے ملک میں اب بھی موجود نہیں۔ سوال سستے مزدوروں کا ہے۔ لیکن سوال کرنے کا میرے پاس وقت نہیں ہے یا حق ۔ اس پر میں ابھی نہیں سوچ سکتی۔۔
میں اس راستے سے بہت دور ہوں جہاں لوگ اپنی آپشنز اوپن ہونے پر خوش ہیں۔ ان کے سینما اب فنون لطیفہ کے نئے رنگین افق کی جانب نظر جمائے کھڑے ہیں اور کپڑوں، ڈراموں کی نئی کھیپ کی تیاری بھی سامنے ہوگی۔ لیکن مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ اس خوشحالی سے راستوں کو کبھی فائدہ نہیں ہوتا۔ راستے تو بس راندہ، درماندہ اور پائمال ہوتے ہیں۔ راستے منزل نہٰں بنتے۔ ہاں سڑکوں کے ساتھ ساتھ بنے ایک رات کے موٹل، سفری بیت الخلاء اور چائے خانے، ٹرکوں کی سروس کے اڈے ایسے کاروبار پھلنے پھولنے کی ایک امید بھی ہے۔ اگر میکڈونلڈ والوں نے اس کا ٹھیکا پہلے سے نہ لے لیا۔۔ افوہ چائے ابلنے کو تھی۔۔ بچت ہو گئی
“ارے تم نے کچھ بات وات نہیں کی آج ۔۔” کسی نے شفقت سے ہاتھ میرے کندھے پر دھرا۔۔ “کچھ بولو تم بھی اس بارے میں۔۔”
“میں ۔۔ میں بھلا کیا بولوں؟؟” میں نے دل ہی دل میں دہرایا۔۔ کچھ نہیں بولنا ، کچھ نہیں سوچنا۔۔
“کچھ تو بولو۔ تبدیلی کے بارے میں کچھ کہو۔۔”
“میں کچھ کہوں تو مگر۔۔۔”
“مگر کیا؟؟؟”
“وہ ۔۔کوہان کا ڈر ہے۔۔”
ان کی شفقت بھری آواز اچانک بارعب ہوگئی۔۔ “کوہان کا ڈر ہے؟؟
اکتوبر میں برف باری
ویسے تو جون میں اولے بھی پڑتے ہیں۔ اور پاؤ بھر کے اولے گاڑی کی باڈی میں پانچ منٹ میں ان گنت نشان ڈال سکتے ہیں۔ اور تجربے سے ہم نے سیکھا ہے کہ ایسے غیر موسمی اور نامعقول حادثات کے بارے میں تمام معلومات پہلے سے رکھنی چاہییں تاکہ گاڑی کو وقت پر اندر رکھنے اور ایسے ہی کچھ دوسرے ضمنی مسائل کو دھیان میں رکھا جائے۔ لیکن اکتوبر میں برف باری نے پھر ہمیں اور ہمارے لینڈ سکیپ کو بے خبری میں جالیا۔
بصیرہ عنبرین۔۔ یہ سچ مچ تم ہو یار بہت زیادہ خوشی ہوئی تم کو یہاں پر دیکھ کر۔ اور میں…
رافعہ خان آج بھی اتنا اچھا لکھ رہی ہیں جیسا کہ شروعات میں لکھ رہی تھیں۔ ماشاءاللہ
یہ کتاب بہت اچھی ہے۔رافعہ کی پہلی کتاب کی طرح۔کیا مصنفہ کا اصل نام رافعہ وحید یے۔
'A blessing cannot be saved.' Aptly put. Jo buray waqt kay liye jama' karay ga, uss par bura waqt aaye…
"ابھی ویسے ایسے لگ رہا ہے کسی نے جلدی میں انقلاب کا ڈبہ کھولتے ہوئے اسے فرش پرگرا دیا ہے"كمال…
میجیکل!!!!کم الفاظ میں اتنا خوبصورت لکھنا، بہت کم لوگوں کے پاس صلاحیت ہوتی ہےلکھتی رہئیے :)
ماشاءاللہ کافی اچھا لکھ لیتی ہو آپ۔ آپ جس طرز کا لکھتی ہو بہت خوب اور عمدہ لکھتی ہو لیکن…
سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہا جا سکتا کہ "بہترین"۔۔۔ اور "بہت ہی عمدہ"۔۔۔
بہت خوب۔۔۔ آپکی پچھلی تحریر بھی کُچھ طویل ہونے کے باوجود پڑھ کر مزہ آیا اور یہی حال اس مرتبہ…
محترمہ رافعہآپ کا بلاگ بہت سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے، اور آپ کی تحریر کا انتظار بھی رہتا ہے-بہت شکریہ